کرپشن ہمارے معاشرے اور سرکاری اداروں میں ناسور کی طرح پھیل چکا ہے، وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ

جس کے خاتمے کیلئے ہمیں انقلابی اقدامات کرنا ہونگے، مگر اس کا اصل حل شرح خواندگی میں اضافہ لانا ہے، جس کیلئے سندھ حکومت کوشاں ہے، اجلاس سے خطاب

جمعرات 14 اپریل 2016 21:56

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔14 اپریل۔2016ء) وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کہا ہے کہ کرپشن ہمارے معاشرے اور سرکاری اداروں میں ناسور کی طرح پھیل چکا ہے، جس کے خاتمے کیلئے ہمیں انقلابی اقدامات کرنا ہونگے، مگر اس کا اصل حل شرح خواندگی میں اضافہ لانا ہے، جس کیلئے سندھ حکومت کوشاں ہے۔یہ بات انہوں نے جمعرات کو وزیراعلیٰ ہاؤس میں اینٹی کرپشن اسٹیبلشمینٹ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہی۔

اجلاس میں صوبائی وزیر داخلہ اور اینٹی کرپشن سہیل انورسیال، چیئرمین اینٹی کرپشن سید ممتاز شاہ اور وزیراعلیٰ سندھ کے پرنسپل سیکریٹری علم الدین بلو اور دیگر متعلقہ افسران نے شرکت کی۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ وہ صوبائی سرکاری محکموں سے کرپشن کی روک تھام کیلئے سختی کے ساتھ کوشاں ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس اے سی ای کی ایک اچھی ٹیم ہے جس کی قیادت صوبائی وزیر داخلہ کر رہے ہیں۔

چیئرمین اے سی ای ممتاز شاہ نے کہا کہ جنوری 2016سے 31مارچ 2016تک ان کی ٹیم نے 22اچانک دورے اور 41ریڈس کئے اور 9ٹر پس کئے اور 82سرکاری اہلکاروں کو گرفتار کرنے اور صوبہ کے 9اضلاع میں 62ایف آئی آرز درج کی گئیں ہیں۔ ان 9اضلاع میں کراچی شرقی، غربی،جنوبی،حیدرآباد، میرپورخاص، جامشورو،شہید بینظیرآباد،سکھر اور لاڑکانہ شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں چالان عدالتوں میں جمع نہیں کرائے جاتے تھے مگر اب اے سی ای نے 2016کے پہلے تین ماہ کے دوران 65چالان عدالت میں جمع کرائے ہیں اور اب تک 4اہلکاروں بشمول ایک ضلع جنوبی اور تین حیدرآباد کے سرکاری اہلکاروں کو سزائیں بھی ہو چکی ہیں۔

چیئرمین اے سی ای نے محکمہ کے حساب سے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ 28مختلف محکموں کے 82افسران/اہلکاروں کو گرفتار کیا گیا ہے، ان 82 اہلکاروں میں سے 5کا تعلق محکمہ بلدیات، 9کا محکمہ داخلہ، 18کا محکمہ روینیو،14کا محکمہ تعلیم، 4کا محکمہ خوراک، 4کا محکمہ ایکسائیز و ٹیکسیشن، 5کا محکمہ صحت، ایک کا محکمہ زکواة و عشر، دو کا محکمہ لائیو اسٹاک فشریز، ایک کا کوآپریٹیو،دو کا ایریگیشن اور جنگلات، ورکس اینڈ سروسز، بہبود آبادی، اسپورٹس، کچی آبادیز اور سیفٹی کمیشن کے ایک ایک اہلکار، 4پبلک ہیلتھ انجنیئرنگ،5رجسٹریشن، دویونیورسٹیز اور ایک محکمہ اسپورٹس کا اہلکار شامل ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اے سی ای نے 400سے زائد افسران /اہلکاروں کے خلاف 373انکوائریز اوپن کیں ہیں۔ یہ انکوائریز فرض شناس اور مخلص افسران کر رہے ہیں، اس پر وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ غیر جانبدارانہ انکوائری ہونی چاہیے اورکسی بھی افسر کو ہراساں کئے بغیر ہونی چاہیے۔ انہوں نے صوبائی وزیر داخلہ و اینٹی کرپشن سہیل سیال پر زور دیا کہ وہ اس بات کو ذاتی طور پر دیکھیں کہ کسی افسر کو ہراساں نہیں کیا جائیگا۔صوبائی وزیر داخلہ نے کہا کہ انہوں نے اے سی ای کو اجازت دی ہوئی ہے کہ وہ آزادانہ طور پر کام کریں اور ہم نے اے سی ای میں عدم مداخلت کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے اور یہ لوگ آزادانہ طور پر کام کر رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اچھے نتائج بھی سامنے آئے ہیں۔