سپریم کورٹ نے صوبہ سندھ میں بلدیاتی اداروں میں میئر ‘ ڈپٹی میئر اور مخصوص نشستوں کے انتخاب کے طریقہ کار سے متعلق دائر کردہ درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 14 اپریل 2016 17:00

سپریم کورٹ نے صوبہ سندھ میں بلدیاتی اداروں میں میئر ‘ ڈپٹی میئر اور ..

اسلام آباد(ا ردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔14اپریل۔2016ء) سپریم کورٹ نے صوبہ سندھ میں بلدیاتی اداروں میں میئر اور ڈپٹی میئر کے علاوہ مخصوص نشستوں کے انتخاب کے طریقہ کار سے متعلق دائر کردہ درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے جو 15 اپریل کو سنایا جائے گا۔یہ درخواست صوبہ سندھ کی حکومت کی طرف سے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی تھی جس میں عدالت عالیہ نے حزب مخالف کی جماعتوں متحدہ قومی موومنٹ اور مسلم لیگ فنکشنل کی طرف سے دائر کی گئی درخواستوں پر میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخابات شو آف ہینڈ ( ہاتھ کھڑا کرنے) کے ذریعے کروانے کو کالعدم قرار دیا تھا۔

سندھ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر کی گئی اس درخواست میں صوبائی حکومت کی پیروی کرنے والے وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ مخصوص نشستوں پر انتخابات کے طریقہ کار پر فریقین کے درمیان اتفاق ہوگیا ہے جس کے لیے سندھ لوکل حکومتوں کے ایکٹ میں ترمیم کرنا ہو گی۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان بلدیاتی انتخابات میں مرضی کے نتائج نہ آنے پر قانون میں ترمیم کی جا رہی ہے۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ صوبہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے بعد میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخابات کے طریقہ کار پر بھی اتفاق ہو جائے گا۔انھوں نے عدالت سے کہا کہ مئیر اور ڈپٹی مئیر کے انتخابات کے بارے میں اگر سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم بھی قرار دیا جائے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ ان انتخابات کا شیڈول ابھی تک طے نہیں ہوا۔

انھوں نے کہا کہ شو آف ہینڈ سے ہارس ٹریڈنگ ختم ہو گی ورنہ ان انتخابات کا حال بھی سینیٹ کے انتخابات جیسا ہی ہو گا۔عدالت نے سندھ حکومت کے وکیل کی استدعا مسترد کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ اگر درخواستوں گزاروں کو اس پر اعتراض نہ ہوتا تو پھر وہ اس قانون کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں کیوں جاتے؟عدالت نے سندھ حکومت کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا حکومت انتخابی عمل شروع ہونے کے بعد اس کے قانون میں ترمیم کر سکتی ہے؟ اس پر فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ اگر کسی قانون میں کوئی سقم رہ جائے تو اسے دور کرنے کے لیے کبھی بھی قانون سازی کی جا سکتی ہے۔