پیف کا سٹوڈنٹ انفارمیشن سسٹم میں طالبعلموں کے اندراج میں جعلسازی کے مرتکب پارٹنر سکولوں سے ریکوری کا فیصلہ

پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن جعلی طالبعلموں کے حوالے سے زیرو برداشت کی پالیسی پر عمل پیرا ہے‘ ایم ڈی طارق محمود کا اجلاس سے خطاب

بدھ 13 اپریل 2016 18:58

لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔13 اپریل۔2016ء)پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن نے سٹوڈنٹ انفارمیشن سسٹم میں طالب علموں کے اندراج میں جعل سازی کے مرتکب پارٹنر سکولوں سے ریکوری کا فیصلہ کیا ہے،ا س حوالے سے مفت تعلیمی منصوبوں کے متعلقہ قوائد و ضوابط کے مطابق جرمانے بھی کیے جائیں گے تاکہ شفافیت کا اعلیٰ ترین معیار برقرار رہے اور حقیقی طور پرمستحق طالب علموں کو مفت تعلیم کے منصوبوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملے۔

یہ فیصلہ ایم ڈی پیف طارق محمود کی زیر صدارت یہاں ان کے دفتر میں منعقدہ پروگرام ڈائریکٹرز کے ہفتہ وار اجلاس میں کیا گیا۔اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ یتیم طالب علموں کے خونی رشتہ دار کو پیف ریکارڈ میں سر پرست بنانے کو پالیسی گائیڈ لائنز کا حصہ بنایا جائے۔

(جاری ہے)

ایم ڈی پیف نے ہدایت کی کہ سٹوڈنٹ انفارمیشن سسٹم میں طالب علموں کی تصاویر کا اپ لوڈ کر نا لازم ہے۔

ایک ماہ بعدپیف کے سٹوڈنٹ انفارمیشن سسٹم کے ڈیٹا میں بغیر تصاویر کے طالب علم جعلی تصور ہوں گے۔ اس ضمن میں تصاویر اپ لوڈ کرنے کے ساتھ ساتھ طالب علموں کے ضروری ڈیٹا کو بھی اپ ٹوڈیٹ کر لیا جائے۔ اس موقع پر فیصلہ کیا گیا کہ سٹوڈنٹ ڈیٹا کی کاؤنٹر چیکنگ کے لیے نادرا ریکارڈ سے بھی مدد حاصل کی جائے۔اجلاس نے پارٹنر سکولوں کو مفت نصابی کتب کی فراہمی کے اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ لاہور کے 358پارٹنر سکولوں کو تقریباً3لاکھ نصابی کتب کی فراہمی کی تین روزہ مہم آج 14اپریل سے شروع کی جا رہی ہے۔پارٹنر سکولوں کو یہ کتب گلبرگ میں تقسیم کتب کے مرکز سے مہیا کی جائیں گی۔اجلاس نے اس بات کو سراہا کہ پارٹنر سکولوں نے2016کے پیک امتحانات میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔طارق محمود نے کہا کہ حکومت پنجاب کی جانب سے سکولوں کی سیکورٹی اور انسداد ڈینگی کے حوالے سے جاری شدہ ہدایات پر مکمل عمل درآمد کیا جائے ۔

اس کے ساتھ ساتھ پبلک سروس ڈیلیوری کا معیار بہترین رکھا جائے۔ اس حوالے سے یہ بات بھی خوش آئندہے کہ پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن نے صوبے کے دور دراز علاقوں میں تعلیمی پسماندگی کے خاتمے میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں ہیں۔ اس طرح غریب بچوں کی تعلیم تک رسائی ممکن ہوئی ہے جبکہ نجی شعبہ کے اشتراک سے شروع کر دہ تعلیمی منصوبوں سے چھوٹے اور درمیانے درجے کے سکول پارٹنرز کو خصوصی فائدہ ہوا ہے۔