جمہوری اور صوبے کے خیر خواہ لوگ ہیں، جہاں پر ہم محسوس کرینگے رہنمائی کریں گے، سینیٹر حافظ حمد اللہ

منگل 12 اپریل 2016 23:26

کوئٹہ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔12 اپریل۔2016ء ) جمعیت علماء اسلام کے مرکزی رہنما و سینیٹر حافظ حمد اللہ نے کہا ہے کہ ہم جمہوری اور صوبے کے خیر خواہ لوگ ہیں جہاں پر ہم محسوس کرینگے کہ حکومت میں شامل ایسے پار ٹی یا شخص جو کہ صوبے کی خدمت کرنیکا جذبہ رکھتا ہو کے خلاف کوئی سازش ہورہی ہے توعوام کے بہتر مفاد میں رہنمائی کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں کیونکہ قوم پرستوں نے صوبے کے حقوق اقتدار کے بدلے گیروی رکھوا دیئے ہیں یہ بات انہوں نے کارکنوں کے ایک وفد سے بات چیت کرتے ہوئے کہی انہوں نے کہا کہ حیرت زدہ ہے کہ جن لوگوں کا اقتدار، انتخاب اور حکومت میں شرکت کسی اور کی مرہون منت ہو ان کا اسلام اسلامی نظریات اور اسلام کی سیاست کرنے والوں پر تنقید اور دوسرے کی حکومت کے لیے پریشانی قرار دینا حیران کن قرار دینا ہے ۔

(جاری ہے)

دراصل ڈوبتے کو تنکیں کا سہارا سے مشابہت دیتے ہیں انہوں نے کہا کہ ہم اقتدار میں ہے یا اپوزیشن میں ، بلوچستان کی عوام گواہ ہیں کہ ہم حکومت اور حکومتی معاملات چلانے کے فیصلے خود کرتے تھے کس شخص کو کیا ذمہ داری دینی ہے اور کیا ذمہ داری لینی ہے یہ خالصتا ہمارا اپنا صوابدید ہوا کرتا تھا ہم نے اپنی منشاء اور مرضی کے مطابق حکومت کی نہ کسی کے کہنے پر کسی کے ساتھ حکومت بنائی اور نہ ہی کسی کے کہنے پر حکومت چھوڑی نہ ہی مری کی یخ ہواوٴں سے ہم نے صوبے کے وزیراعلیٰ کی انتخاب اور تبدیلی کے فیصلے کو قبول کیا نہ ہی ڈھائی سال بعد اسی فیصلے کی روشنی میں وزیراعلیٰ تبدیل کیا ۔

انہوں نے کہا کہ پشتو زبان میں کہاوت ہے کہ اس کنیز کے لیے موت بہتر ہے جو دوسرے کنیز کے کپڑے دھوتی ہو۔ ہم نے جب بھی وزیراعلیٰ کا انتخاب کیا صوبے کی سطح پر کیا یہاں تک کہ نواب اسلم خان رئیسانی کی حکومت ختم کرنے کے لیے اس وقت کے زورور ترین شخصیت اور صدر آصف علی زرداری نے بے پناہ کوشش کی لیکن جمعیت نے نواب اسلم خان رئیسانی کا ساتھ نہیں چھوڑاانہوں نے کہا کہ آج وہ لوگ ڈیورنڈ لائن کے کھدائی کا ٹھیکہ لے کر اپنے بچوں کو لندن اور امریکہ کی پر آسائش زندگی فراہم کررہے ہیں کہ جنہوں نے ماضی میں پشتون قوم کے بچوں کو اس مسئلے پر گمراہ کئے رکھا تھا آج حالت یہ ہے کہ حکومتی معاملات مکمل طور پر رکھے ہوئے ہیں یہاں تک کہ قوم پرست وزراء اپنی نجی محفلوں میں کہتے ہیں کہ ان کی بات کہی پر نہیں سننی جاتی جبکہ جمعیت علماء اسلام کے دور حکومت میں ایسی مثال نہیں مل سکتی۔