تھر میں بھوک اور بارشوں سے ہر روز بچے اور بڑے زندگی کی بازی ہار رہے ہیں،جسٹس (ر)علی نواز چوہان

سندھ حکومت انسانی حقوق کے تحفظ کی بجائے سڑکیں بنانے میں مصروف عمل ہے تھر میں ڈسپینسریوں میں ڈاکٹرہی موجود نہیں ، پورے تھر میں صرف 14حکومتی ایمبولینسیز ہیں، 6 سول ہسپتال مٹھی کے زیر استعمال ہیں جو مریضوں کے خرچے سے چلائی جا رہی ہیں 432پانی کے پلانٹس لگائے گئے جن میں سے 79خراب ہو چکے ہیں،تھر میں 70فیصد غیر مسلم لوگ ہیں شاید اس لیے ان لوگوں کو انکا حق ٹھیک طریقے سے نہیں دیا جا رہا ایسا نہ ہو کے وہ لوگ باغی ہو جائیں، چےئرمین نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق کی پریس کانفرنس

منگل 12 اپریل 2016 21:01

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔12 اپریل۔2016ء) چےئرمین نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق جسٹس (ر)علی نواز چوہان نے کہا ہے کہ تھر میں بھوک اور بارشوں کی وجہ سے ہر روز بچے اور بڑے زندگی کی بازی ہار رہے ہیں اور سندھ حکومت انسانی حقوق کے تحفظ کی بجائے سڑکیں بنانے میں مصروف عمل ہیں، تھر میں قائم ڈسپینسریوں میں ڈاکٹرہی موجود نہیں ہیں، پورے تھر میں صرف 14حکومتی ایمبولینسیز ہیں جس میں سے 6 سول ہسپتال مٹھی کے زیر استعمال ہیں جو مریضوں کے خرچے سے چلائی جا رہی ہیں، تھر میں 432پانی کے پلانٹس لگائے گئے جن میں سے 79خراب ہو چکے ہیں،تھر میں 70فیصد غیر مسلم لوگ ہیں شاید اس لیے ان لوگوں کو انکا حق ٹھیک طریقے سے نہیں دیا جا رہا ایسا نہ ہو کے وہ لوگ باغی ہو جائیں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کے روزاسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران کیا۔

(جاری ہے)

چےئرمین نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق جسٹس (ر)علی نواز چوہان کا کہنا تھا کہ تھر میں 2380گاؤں ہیں ،97فیصد ایریا صحرا پر مشتمل ہے،سندھ کے قانون کے مطابق خشک سالی سے پہلے اعلان ہونا چاہیے تاکہ لو گ اپنی اشیاء خوردو نوش کو محفوظ کر لیں تاکہ قحط کے وقت انکے کام آ سکے،تھر میں بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے،جبکہ انسانی حقوق میں ترقی کی بجائے سندھ حکومت سڑکیں بنانے میں مصروف ہے،تھر میں قائم ڈسپینسریز میں ڈاکٹر موجود نہیں تھے،ہم نے تین ہسپتالوں کا دورہ کیا جس کے بعد معلوم ہوا کے وہ ہسپتال عام ہسپتالوں سے بہت تھے،اور ڈاکٹرز اپنے فرائض سہی طریقے سے سر انجام نہیں دے رہے،انہوں نے کہا کے پورے تھر میں صرف 14حکومتی ایمبولینسیز ہیں جن میں پیٹرول بھی مریض کے خرچے پر ڈلوایا جاتا ہے،شیر خوار بچوں کی خوراک صرف ماہ کا دودھ ہے اس کے علاوہ کوئی کچھ نہیں ،جبکہ تھر میں 2.5بلین روپے تعلیم کے لیے محتص کیے گئے لیکن وہاں ایسا کچھ نظر نہیں آیا،750ملین روپے وزارت انسانی حقوق کے پاس ہیں اگر انکو تھر میں لگا دیے جائے تو وہاں کے لوگوں کی مشکلات میں کمی واقع ہو سکتی ہے،انہوں نے کہا یہ صوبائی اور وفاقی حکومت کا مشترکہ مسئلہ ہے جسے انہیں مل کر حل کرنا ہو گا،اور مقامی انتظامیہ کو تبدیل کرنا چاہیے،این ڈی ایم اے کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہیے،تھر میں 70فیصد غیر مسلم لوگ ہیں شاید اس لیے ان لوگوں کو انکا حق ٹھیک طریقے سے نہیں دیا جا رہا،اور اگر ہم نے جلد انکے لیے کچھ نہ کیا تو وہ باغی ہو سکتے ہیں،انہوں نے کہا کہ سندھ میں ممکنہ خشک سالی کے تدارک کے لیے قانون موجود ہے جس کو بروئے کار لاتے ہوئے تھر کے متاثرین کے مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے،انکا کہناتھا کہ تھر کے سرکاری ہسپتالوں میں تعینات 70فیصد ڈاکٹرز پرائیویٹ ہسپتالوں میں کام کرتے ہیں،

متعلقہ عنوان :