Live Updates

امیر حیدر خان نے ایک بار پھر ملاکنڈ ڈویژن اور کوہستان میں کسٹم ایکٹ کو یکسر مسترد کر دیا

وفاق اور صوبائی حکومت کی ملی بھگت سے یہ ٹیکس واپس نہیں لیا گیا تو اس کی ذمہ داری پی ٹی آئی کی حکومت میں شامل جماعت اسلامی ، قومی وطن پارٹی ،سابقہ پرچ پیالی اور پی ٹی آئی پر ہو گی ، جلسہ عام سے خطاب

پیر 11 اپریل 2016 23:35

صوابی(اُردوپوائنٹ تازہ ترین اخبار۔11 اپریل 2016ء) ا ے این پی صوبہ خیبر پختونخوااور سابق وزیرا علیٰ امیر حیدر خان ہو تی نے ایک بار پھر ملاکنڈ ڈویژن اور کوہستان میں کسٹم ایکٹ کو یکسر مسترد کر تے ہوئے کہا کہ اگر وفاق اور صوبائی حکومت کی ملی بھگت سے یہ ٹیکس واپس نہیں لیا گیا تو اس کی ذمہ داری پی ٹی آئی کی حکومت میں شامل جماعت اسلامی ، قومی وطن پارٹی ،سابقہ پرچ پیالی اور پی ٹی آئی پر ہو گی ۔

ان خیالات کااظہار انہوں نے پیر کی شام ضلعی سینئر نائب صدر انجینئر امجد علی خان کے حجرہ موضع چھوٹا لاہور میں ضلعی صدر امیر الرحمن کی صدارت میں ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کر تے ہوئے کیا جس سے صوبائی سیکرٹری جنرل سردار حسین بابک ، ضلعی صدر امیر الرحمن ، جنرل سیکرٹری حاجی محمد اسلام خان اور ضلعی نائب صدر انجینئر امجد علی و دیگر نے بھی خطاب کیا۔

(جاری ہے)

امیر حیدر خان ہو تی نے کہا کہ صوبہ خیبر پختونخوا اور وفاق میں جن سیاسی پارٹیوں کی حکومتیں قائم ہے وہ دونوں پختون قوم کی حیثیت اور وجود سرے سے تسلیم نہیں کر تی کیونکہ وہ کسی صورت پختونوں کے ووٹ سے ملک کے وزیر اعظم نہیں بن سکتے اس لئے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور عمران خان دونوں کی توجہ پنجاب کو فتح کر نے پر ہے جس کی وجہ سے خیبر پختونخوا اور بلو چستان میں پختون مایوسی اور محرومیوں کے شکار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم ان دونوں جماعتوں کی قیادت کی وجود ، سیاست اور حکومت ہی تسلیم نہیں کر تے ہمارا راستہ دریائے سندھ کے اس پار ہے اور ان کا راستہ دریائے سندھ کے اُس پار ہے انہوں نے اعلان کیا کہ وہ چترال سے ڈیرہ اسماعیل خان تک پختونوں کو موجودہ دلدل سے نکالنے اور ان کو درپیش مسائل کے حل کے لئے سرخ جھنڈے تلے متحد کر نے کے لئے میدان میں نکل چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پشاور کے حلقہ پی کے 8کے ضمنی الیکشن کے لئے پارٹی کے امیدوار نامزد کرانے کے لئے میں نے پشاور کے تمام عہدیداروں کو طلب کر کے ان سے متفقہ امیدوار نامزد کرانے کے لئے نام طلب کئے او ر ان کے رائے پر ٹکٹ کا فیصلہ دیدیا ہے اور آئندہ انتخابات میں پورے صوبے میں یہ روایت بر قرار رکھ کر کارکنوں اور تنظیموں کی مشاورت سے پارٹی امیدواروں کو ٹکٹ جاری کئے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اپنے دور حکومت میں خدائی خدمتگاربزرگوں کے ارمان کے مطابق صوبے کا نام خیبر پختونخوا رکھنے کے علاوہ مرکز سے صوبائی حقوق اور آٹھارویں تر میم میں بہت زیادہ صوبے کے حقوق لائے جس کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ انہوں نے کہا کہ کارکنان اور تنظیمیں چترال سے ڈی آئی خان تک تمام پختونوں میں اتحا د و اتفاق پیدا کر نے ، عوام کو پارٹی کا پیغام پہنچانے اور آئندہ انتخابات کے لئے تیاریوں کے سلسلے میں اپنا بھر پور کر دار ادا کریں۔

انہوں نے کہا کہ 2013کے عام انتخابات میں نجی ٹی وی چینلز پر انتخابی نتائج کے مطابق اے این پی کے خلاف جو پرو پیگینڈہ ہو رہا تھا اس کا جواب آج صوابی کے تمام حلقوں میں ان کے بڑے بڑے جلسہ عام میں کارکنوں نے دیدیا۔میں خود اس کا جواب نہیں دے رہا تھا انہوں نے کہا کہ مجھے کارکنوں کی ہمت ، اخلاص او ر خلوص پر اعتماد ہے جو مخالفین یہ پروپیگنڈہ کر رہے تھے کہ اے این پی پانچ سے بارہ تک سیٹیں نہیں جیتے گی۔

لیکن میں یہ واضح کرنا چاہتاہوں کہ یہ سیٹیں آئندہ انتخابات میں صوابی ہی سے اے این پی جیتے گی۔2015کے بلدیاتی الیکشن میں صوابی اور مردان میں اے این پی نے کامیابی حاصل کی اور آئندہ عام انتخابات 2018میں سارے پختونخوا میں اے این پی کامیابی حاصل کرئے گی۔پختون چونکہ جذباتی قوم ہے۔ اس لئے 2013کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ دیا تھا لیکن آج صوبے کا یہ صورتحال ہے کہ صوبائی حکومت کے تر جمان مشتاق غنی کا جو بیان شائع ہوا ہے اس نے اعتراف کیا ہے کہ صوبائی حکومت کے پا س تنخواہوں کے علاوہ اور پیسے نہیں ہے ۔

ہماری طرز حکمرانی پر تنقید کر نے والوں سے پوچھتا ہوں کہ ہمارے دور میں اربوں روپے خزانے میں پڑے تھے وہ بھرا ہوا خزانہ آج کیسے خالی ہوا ہے کہ آج نئے سکیموں کے علاوہ جاری سکیموں کے لئے بھی صوبائی حکومت کے پاس پیسے نہیں ہے وزیر اعلیٰ اپوزیشن ممبران کی تنقید پر کہتے ہیں کہ اس سے میرا بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے لیکن وزیر اعلیٰ کے بدن میں جب خون نہیں ہوتا ہے تو ان کا بلڈ پریشر کہاں سے اوپر چلا جاتا ہے حقیقت یہ ہے کہ صوبائی وزیر اعلیٰ حکومت سے فارغ ہونے کے بعد کسی اور جماعت میں جانے کا سوچیں گے۔

کیونکہ انہوں نے ماضی میں بے نظیر بھٹو ، آفتاب شیر پاؤ کو چھوڑ کر اقتدار کے لئے عمران خان کے ساتھ شامل ہو گئے وہ ماضی کی روایت کو بر قرار رکھ کر عمران خان کو بھی چھوڑینگے۔وزیر اعلیٰ دہشت گردوں کا حملہ ناکام بنانے کے لئے اس کی ذمہ داری وی سی اور اساتذہ پر ڈالتے ہیں پختونوں نے پی ٹی آئی کو اس لئے ووٹ نہیں دیا تھا کہ ان کے بچوں کے ہاتھوں میں بندوق دیں اور بندوق چلانا سکھائے۔

لیکن ان بچوں کے ہاتھوں میں کتاب اور قلم تھمانے کے لئے دیا تھا۔ جس طرح ہم نے اپنے دور میں بچوں کے ہاتھ میں قلم اور کتاب دیا تھا پانچ سالوں میں دس یونیورسٹیاں قائم کی ۔ درجنوں کالجز اور سینکڑوں سکولز قائم کئے ۔ دہشت گردوں کے حملوں کا مقابلہ جس طرح ہم نے کیا تھا اسی طرح میدان میں یہ مقابلہ بچوں اور اساتذہ کی بجائے وزیر اعلیٰ کوکرنا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ ہم کسٹم ایکٹ کے خلاف میدان میں نکل چکے ہیں ہمارا موقف ہے کہ جن لوگوں نے ملک کے لئے قر بانیاں دی ۔ اپنے گھر بار چھوڑ کر متاثرین کی حیثیت سے صوابی مردان اور دیگر اضلاع میں زندگی گزاری۔اگر وفاق اور صوبہ ملاکنڈ کے عوام کے ساتھ اچھا نہیں کر تے تو برا نہ کریں ثمرات نہیں دے سکتے تو اس پر اضافی بوجھ نہ ڈالا جائے پختون اس ایکٹ کو ماننے کو تیار نہیں ورنہ صوبائی حکومت صوابی مر دان اور پشاور میں بھی ٹیکسز نافز کرئے گی۔

میاں نواز شریف چوتھی بار ملک کے وزیر اعظم اور عمران پہلی بار وزیر اعظم بننے کے خواہش مند ہے اس کشمکش اور مقابلے میں پختون مشکلات اور مسائل سے دوچار ہے حالانکہ دونوں کا مقابلہ صوابی ،مردان ، چارسدہ کی یونیورسٹیوں کروڑوں فنڈز صوبے میں کالجز کے قیام میں کرنا چاہئے
Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات