اعتزاز احسن کا شریف خاندان کی جائیداد کا فرانزک آڈٹ کروانے کا مطالبہ

پانامہ لیکس میں وزیراعظم کے خاندان کا نام آنے پر پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی، نواز شریف اور ان کے بیٹے کے بیانات میں اس معاملہ پر واضح تضادات ہیں شریف خاندان کے پاس کون سا پارس کا پتھر ہے کہ جس چیز کو ہاتھ لگاتے ہیں سونا بن جاتی ہے، یوسف رضا گیلانی کو بھی اس طرح کے کیسز میں سزا ہوئی حسین نواز نے پانامہ کی کمپنی کے ذریعے جائیدادیں خریدیں یہ جائیدادیں 1994ء سے 1995ء سے موجود ہیں ،پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اظہا خیال

پیر 11 اپریل 2016 23:30

اسلام آباد(اُردوپوائنٹ تازہ ترین اخبار۔11 اپریل 2016ء) پیپلز پارٹی کے رہنما و اپوزیشن لیڈر اعتزاز احسن نے شریف خاندان کی جائیداد کا عالمی فورمز کی مدد سے فرانزک آڈٹ کروانے کا مطالبہ کردیا ۔ پانامہ لیکس میں وزیراعظم کے خاندان کا نام آنے پر پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی ہے وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بیٹے کے بیانات میں اس معاملہ پر واضح تضادات ہیں حکمران خاندان اپنے پیسے لندن میں رکھ کر لوگوں کو ٹیکس دینے اور سرمایہ کاری کرنے کا کہتے ہیں حسین نواز نے پس پردہ رہ کر ساری جائیداد بنائی ہے شریف خاندان کے پاس کون سا پارس کا پتھر ہے کہ جس چیز کو ہاتھ لگاتے ہیں وہ سونا بن جاتی ہے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو بھی اس طرح کے کیسز میں سزا ہوئی تھی۔

پیر کو مشترکہ اجلاس کے موقع پر سینٹ میں اپوزیشن لیڈر اعتزاز احسن نے اظہا خیال کرتے ہوئے کہا کہ شریف خاندان کی جائیداد کا عالمی فورمز کی مدد سے فرانزک آڈٹ کروایا جائے یہ پاکستان کی تاریخ میں اہم موقع ہے کہ شریف خاندان کا احتساب کیا جائے انہوں نے کہا کہ پانامہ لیکس میں نام آنے کے معاملے پر وزیراعظم اور ان کے بیٹے کے بیان میں واضح تضادات ہیں پانامہ میں وزیراعظم کے خاندان کے نام آنے پر شرمندگی ہوئی ہے یہ ہمارے لئے جگ ہنسائی کا ذریعہ بنا ہے وزیراعظم کے بیٹے نے ایک ٹی وی پروگرام میں آکر بیان دیا کہ دسمبر 2000ء میں وزیراعظم کا خاندان خفیہ معاہدہ کے تحت سعودی عرب گیا تھا تو انہوں نے کچھ پیسے ساتھ لے گئے تھے تو وہاں بینکوں سے قرضہ لے کر انہوں نے اسٹیل مل لگائی تو انہوں نے اسٹیل مل کو بیچ کر برطانیہ کے جزیرہ میں جائیدادیں بنائیں ان تمام معاملات میں پانامہ کمپنی نے مدد کی وزیراعظم نے جوش میں آکر کمیشن کا اعلان کردیا اور انہوں نے کہا کہ جس نے پیسہ چھپانا ہوتا ہے وہ اپنے نام پر جائیداد نہیں بناتے حسین نواز نے پانامہ کی کمپنی کے ذریعے جائیدادیں خریدیں یہ جائیدادیں 1994ء سے 1995ء سے موجود ہیں اعتزاز احسن نے مزید کہا کہ صدیق الفاروق نے پارک لین میں شریف خاندان کی جائیدادیں ہونے کی تصدیق کی ہے نواز شریف وہا ں جا کر رہا کرتے تھے حکومت کی جانب سے کنفیوژن بڑھائی جارہی ہے کہ وزیراعظم نواز شریف اور شہباز شریف کا نام نہیں آیا یہ بھی کہا گیا کہ جو بندہ 180دن یا اس سے زائد باہر رہتا ہے وہ ٹیکس نہیں دے سکتا اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو اس معاملے پر وضاحت کرنا پڑی کس نے اسٹیٹ بینک کو وضاحت دینے کو کہا نوے کی دہائی میں چوہدری شوگر مل نے بیس ملین ڈالر کا قرضہ لیا تھا فیصل بینک نے ایک سپیشل کپمنی بنائی اس کمپنی کا نام چگیران تھا اس کمپنی نے بیس ملین ڈالر کا قرضہ لے کر چوہدری شوگر مل کودے دیا ۔

(جاری ہے)

سوال اٹھتا ہے کہ چیگران کو یہ نہیں مانتے تو وہ ان کے لئے کیوں قرضہ لے رہی تھی وزیراعظم نواز شریف کی پہلی دور حکومت میں کمپنی بنی کیونکہ انہوں نے بینک پر پریشر ڈالا بینک کی انتظامیہ نے بھی جرم کیا ہے بینک والوں نے اپنے اکاؤنٹس والوں کے ساتھ فراڈ کیا ہے اس پر نیب آرڈیننس کی ذیلی شق آٹھ لگتی ہے یوسف رضا گیلانی کو اسی شق کے تحت سزا ہوئی تھی کیونکہ اس نے بھی اتھارٹی کا غلط استعمال کیا تھا ۔

انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف کے ساتھ خفیہ معاہدہ کیا تھا تو انہوں نے املاک بیچ کر قرضہ واپس کیا انہوں نے مزید بتایا کہ الفیصل بینک کی لون کمپنی میں کون کون شامل تھا وزیراعظم پاکستان کو ایک بینک نے کیوں اتنا قرضہ دیا۔ انہوں نے تو کاروبار 1936ء میں شروع کیا تھا یہ سات بھائیوں کا کاروبار تھا باقی چھ بھائیوں کا نام کس نے سنا ہے جب یہ جائیدادیں بنائی جارہی تھیں تو انہوں نے پاکستان میں کتنا ٹیکس دیا تھا زیرو ٹیکس دیا تھا نماز کے وقفہ کے بعد اظہار خیال کرتے ہوئے اعتزاز احسن نے کہا کہ وزیراعظم کے بیٹے حسین نواز تیرہ سال کی عمر میں اربوں روپے کے مالک تھے جو بے نامی کے زمرے میں آتے ہیں ایک طرف کہاجاتا ہے کہ آف شور کمپنی بنانا جرم نہیں ہے وزیراعظم اور ان کے بے نامی رشتہ دار بتادیں یہ پیسا کہاں سے آیا ؟ ان کی تکلیف کا احساس ہے میاں نواز شریف اور شہباز شریف کا نام تو نہیں آیا لیکن اب ان کا نام بھی آگیا ہے نیلسن اور نیسکام کے علاوہ چیگران شامل ہیں ان کا نام پر منورہ ٹرسٹ ، منورہ نوچی شہران ان کا پوریٹ اور فلیگ شپ شامل ہیں آف شور کمپنی کا مقصد یہ ہے کہ بینک اکاؤنٹ یا کمپنی کی مالک کا نام ظاہر نہیں کیا گیا انہوں نے پارک لین میں جائیدادیں خریدنے کا اعتراف کیا ہے ان فشرز قانون میں تو آف شور کمپنی کی کوئی مسئلہ نہیں ہے اعتزاز احسن نے مزید کہا کہ آپ بطور وزیراعظم اپنے پیسے لندن میں رکھ کر لوگوں کو ٹیکس دینے کی بات کرتے ہیں وزیراعظم نے کمیشن بنانے کی ہدایت کی سننے میں آرہا ہے کہ ججز بھی ہچکچہاہٹ دکھا رہے ہیں وزیراعظم کی کمیشن بنانے کی تاریخ بھی عجیب ہے 1992ء میں کارپوریٹ سوسائٹی کا ایک بحران آیا تھا حکمران خاندان نے ان میں سے کروڑوں روپے شیئر کئے اور اپنی سرمایہ کاری کیلئے استعمال کئے افضل لون کو کارپوریٹو سوسائٹی واقعہ کی انکوائری کمیشن مقرر کیا ان کی رپورٹ کے بعد ان کو سینٹ کا ٹکٹ دیا گیا جبکہ جو ججز ان کیخلاف فیصلہ کرتے ہیں ان کے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں کروایا جاتا میں جانتا ہوں کہ وزیراعظم نواز شریف کی جائیداد میں کوئی گھپلا نہیں ہے سب قانونی ہے لیکن عالمی فورمز کی مدد سے شریف خاندان کی جائیداد کا فورنزاک آڈٹ کروایا جائے حکومت ورلڈ بینک کے پاس جائے اور گمشدہ اثاثوں کے حوالے سے مدد طلب کریں اور ان سب معاملات کی جانچ پڑتال چیف جسٹس کی سربراہی میں کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ اس ملک کو موقع ملا ہے کہ شریف خاندان کا احتساب کیا جائے اگر ایسا نہ ہوا تو پھر اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے