شہداء اور سپاہیوں کے نام پر 14ہزار ایکڑ زمین کوڑیوں میں خرید کر ڈی ایچ اے نے 196 ارب جیب میں ڈال لئے

پیر 11 اپریل 2016 19:02

کراچی(اُردوپوائنٹ تازہ ترین اخبار۔11 اپریل 2016ء) ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی ( ڈی ایچ اے ) نے سندھ حکومت سے 14ہزار ایکڑ زمین شہداء اور سپاہیوں کے نام پر کوڑوں کے بھاؤ خرید کر 196 ارب روپے جیب میں ڈال لئے ۔ شہداء کے اہلخانہ اور سرحدوں پر لڑنے والے سپاہی اپنی چھت نہ حاصل کرسکے ۔ ڈی ایچ اے نے سندھ حکومت سے زمین ایک لاکھ روپے فی ایکڑ کے حساب سے خریدی اور بعد ازا ں اسے کمرشل اور رہائشی حصوں میں تقسیم کرکے تقریباً 196ارب روپے کما لئے ۔

ڈی ایچ اے نے اپنے من پسند افراد کو مختلف ٹریڈ زمین پلاٹ الاٹ کرکے بھی نوازا ۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے قومی احتساب بیورو (نیب ) سے درخواست کی ہے کہ وہ ڈی ایچ اے سٹی پلانز کی تفتیش کرے اس کی شکایت ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کو کی گئی تھی کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ( ایس بی سی اے ) اور کنٹونمنٹ بورڈ نے اس کی منظوری نہیں دی تھی ۔

(جاری ہے)

ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے نیب کو خط لکھا گیا ہے جس میں ڈی ایچ اے سٹی پلانز کی قانونی حیثیت بارے تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے خط میں کہا گیا ہے کہ اگر شکایت درست پائی گئی تو نیب کو ڈی ایچ اے کیخلاف ایکشن لینا چاہیے ۔

خط میں کہا گیا ہے کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل پاکستانکو ڈی ایچ اے کراچی کیخلاف شکایت ملی ہے کہ ڈی ایچ اے ریگولیٹر نہیں ہے اور ڈی ایچ اے سٹی پلانز کی منظوری ایس بی سی اے یا کینٹ بورڈ نے نہیں دی ہے اور ڈی ایچ اے کی تین سو مربع گز کے رہائشی پلاٹوں کی بطور کمرشل پلاٹس منتقلی غیر قانونی ہے جو ڈی ایچ اے فیز آٹھ میں واقع ہے ۔ چیئرمین نیب کو درخواست کی گئی ہے کہ وہ اس شکایت کا جائزہ لیں اور اگر یہ درست پائی گئی تو ڈی ایچ اے سٹی کلفٹن کنونمنٹ بورڈ سے قانونی دستاویزات حاصل کرکے ایکشن لیا جائے خط میں کہا گیا ہے کہ 1999ء سیکشن 9اور 10کے تحت ان تمام کیخلاف کارروائی کی جائے جو اختیارات کے ناجائز استعمال اور قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصانات کے ذمہ دار ہیں خط میں شکایات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 11000ایکڑ کی زمین پر پھیلے ہوئے ڈی ایچ اے سٹی پلانز کی منظوری کراچی بلڈنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ ریگولیزیشن کے مطابق سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ( ایس بی سی اے ) نے نہیں دی اسی طرح ڈی ایچ اے ماسٹر پلان کی منظوری بھی کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ کے بائی لاز کے مطابق نہیں دی گئی خط میں کہا گیا ہے کہ ڈی ایچ اے کراچی چار سال سے ڈی ایچ اے سٹی کے پلاٹس غیر قانونی طور پر فروخت کررہی ہے ڈی ایچ اے کی جانب سے خریدے گئے پلاٹس تیس سال کیلئے کیٹل فارمنگ اور چکن فارمز کیلئے الاٹ کئے گئے تھے جن کو مختلف ڈی سیز نے 99سال کیلئے غیرقانونی طور پر لیز میں تبدیل کردیا۔

خط میں مزید کہا گیا ہے کہ اس طرح کی تمام تبدیلیاں بشمول تیس سے 99سال کیلئے تبدیلی غیر قانونی ہے وزیراعلیٰ صرف صنعتی مقاصد کیلئے لیز کو 99سال کیلئے اجازت دے سکتا ہے ۔2011ء کانوٹیفکیشن کی وزیراعلیٰ نے خارج کردیا تھا خط میں کہا گیا ہے کہ سندھ حکومت اب تمام غیر قانونی پلاٹوں اور 55.21ایکڑ اراضی کو منسوخ کرنے کے عمل میں مصروف ہے جو ستائیس نومبر دو ہزار بارہ کو ڈی ایچ اے کے ایڈمنسٹریٹر کو الاٹ کئے گئے ۔

ڈی ایچ اے نے 2015ء میں غیر قانونی طور پر دو سو پچیس رہائشی پلاٹوں کو بیچ ایونیو پر کمرشل پلاٹوں میں تبدیل کیا اراضی کی یہ تبدیلی غیر قانونی ہے اور سپریم کورٹ کے حکم کے برعکس ہے اراضی کی منتقلی کی اتھارٹی صرف کینٹ بورڈ کے پاس ہے بہت سے ڈی ایچ اے افسران نے تین سو مربع گز کے رہائشی پلاٹ بیس ملین روپے کے حساب سے خریدے اور یہ پلاٹ اس وقت خریدے گئے جب ڈی ایچ اے نے ان کو غیر قانونی طور پر رہائشی قرار نہیں دیا تھا خط میں کہا گیا ہے کہ ان میں سے ہر پلاٹ کی قیمت اب دو سو بیس ملین تک پہنچ گئی ہے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں ڈی ایچ اے کے کیس کی سماعت کے دوران جسٹس دوست محمد نے ریمارکس دیئے تھے کہ کیا ڈی ایچ اے نے غیر قانونی کارروائی کرکے اس علاقے کو کنٹرولڈ ایریا قرار دیدیا ہے جس پر فاضل وکیل نے کہا تھا کہ ڈی ایچ اے نے ایک سو چھپن اراضی کو کنٹرولڈ ایریا قرار دیا تھا تاہم قبضہ نہیں کیا ڈی ایچ اے کے وکیل نے کہا تھا کہ قانون کے مطابق ڈی ایچ اے کسی بھی اراضی کو کنٹرول ایریا قرار دے سکتی ہے اس پر جسٹس دوست محمد خان نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ آمر کے دور حکومت میں ڈی ایچ اے لاہور کو قانونی تحفظ دیا گیا تھا جو غیر قانونی تھا پاکستان تو کیا اس قانون کے تحت ڈی ایچ اے والے بھارت کو بھی کنٹرولڈ ایریا قرار دے سکتے ہیں بعد ازاں فاضل عدالت نے ڈی ایچ اے کی نظر ثانی کی اپیل خارج کردی تھی ۔

متعلقہ عنوان :