لاپتہ افراد کیس،سپریم کورٹ نے وزارت دفاع و داخلہ سے رپورٹس طلب کر لیں

لاپتہ افراد کا مقدمہ حساس ترین ہے،لوگوں کی آزادی اور بنیادی حقوق کا معاملہ ہے،آنکھیں بند نہیں کرسکتے،چیف جسٹس انورظہیرجمالی مرنے والے کا غم ختم ہوجاتا ہے جن کے بارے میں معلوم ہی نہیں کہ کہاں اور کس حال میں ہیں ان کا غم ختم نہیں ہوتا،جسٹس ثاقب نثار

جمعرات 7 اپریل 2016 19:23

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔07 اپریل۔2016ء) سپریم کورٹ نے ملک بھر سے لاپتہ افراد بارے وزارت دفاع اور وزارت داخلہ سے رپورٹس طلب کرتے ہوئے ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد بھٹی کو ہدایت کی ہے کہ تمام رپورٹس ہر حال میں یکم مئی سے قبل جمع کرا دی جائیں ۔ پانچ رکنی لارجر بنچ کے سربراہ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ لاپتہ افراد کا مقدمہ حساس ترین مقدمہ ہے تاہم افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ اتنے اہم مقدمے کو دو سال بعد سماعت کے لئے مقرر کیا گیا ،یہ لوگوں کی آزادی اور بنیادی حقوق کا معاملہ ہے ، اس پر آنکھیں بند نہیں کر سکتے اس مقدمے کو سماعت کے لیے لگانے کا مقصد اس حوالے سے معلومات اکٹھی کرنا ہے کہ آیا لاپتہ افراد کو کس نے اٹھائے کیا یہ سیکورٹی اداروں کی تحویل میں ہیں یا حراستی مراکز میں موجود ہیں، کتنے زندہ اور کتنے مر چکے ہیں کتنے اپنی مرضی سے اور کتنوں کو مقابلے میں مار دیا گیا ہے جبکہ جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ مرنے والے کا غم تو آخر ختم ہو ہی جاتا ہے جن کے بارے میں معلوم ہی نہیں کہ وہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں ان کا غم ختم نہیں ہوتا، آپ کہتے ہیں کہ لاپتہ افراد کو حساس اداروں نے اٹھایا ہے جب ان سے پوچھتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ یہ اپنی مرضی سے کہیں گئے ہیں ۔

(جاری ہے)

مسعود جنجوعہ کے حوالے سے رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ وہ اب زندہ نہیں ہیں اس پر آمنہ مسعو جنجوعہ نے کہا کہ ان کے حوالے سے کافی شہادت موجود ہے جمعرات کے روز کیس کی سماعت چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربرہی میں 5رکنی لارجر بنچ نے کی ۔لاتپہ افراد کے مقدمات کی سماعت شروع ہوئی تو اس دوران ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد بھٹی پیش ہوئے ان کے ساتھ عاصمہ جہانگیر بھی موجود تھی انہوں نے عدالت کو بتایا کہ 285 لاپتہ افراد ہیں ان کو سیکورٹی اداروں نے اٹھایا ہے ان کو ابھی تک بازیاب نہیں کرایا جا سکا ہے ان کے شناختی کارڈز نمبر تک دیئے ہیں ۔

چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ آپ بتائیں کہ اس کا کیا حل ہے اور یہ کیسے بازیاب ہو سکتے ہیں ۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ بعض افراد حراستی مراکز میں ہیں ان کو بازیاب کرایا جا سکتا ہے ۔ باقی لوگوں کی بات علیحدہ ہے ہر ایک کو سیکورٹی اداروں نے اٹھایا ہے کہیں بلوچ رجمنٹ کہیں ایف سی کی بات کی گئی ہے ساجد بھٹی نے کہا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی بارے کمیشن کی رپورٹ ہے چیف جسٹس نے کہا کہ یہ رپورٹ تو سب کو جانی چاہئے تھی آپ کو یہ ریکارڈ تاریخ سماعت سے قبل جمع کرانا چاہئے تھا تاکہ دوسرے فریق بھی اس کا جواب دے سکتے اب کیا کریں گے آپ نے یہ ریکارڈ پہلے کیوں فائل نہیں کیا اتنا عرصہ گزر چکا ہے ۔

ساجد بھٹی نے کہا کہ یہ مارچ 2015 کا معاملہ ہے عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ وہ کمیشن کے روبرو پیش ہوتی رہی ہیں، وہاں پر احساس اداروں کے لوگ بیٹھے ہوتے ہیں وہاں پریشان حال والدین ڈر کے مارے جا ہی نہیں سکتے ۔ ساجد بھٹی نے کہا کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال ، ریٹائر آئی جی ، ایک اور ممبر بھی بیٹھتے ہیں ۔ ایجنسیز کو کمیشن بلاتے ہیں اور وہ رپورٹ پیش کرتے ہیں بڑی تعداد میں لوگ بازیاب ہوئے ہیں ۔

عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ ایسا کوئی شخص سامنے نہیں آیا ۔ میرے مقدمات کی بات نہیں ہوئی ہے چیف جسٹس نے کہا کہ فروری 2016 تک کی بات کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ ایک ہزار سے زائد لوگ بازیاب ہوئے ہیں ۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ یہ ایک حساس اور انسان کے بنیادوں حقوق کا معاملہ ہے دنیا سے جانے والے پر صبر آ جاتا ہے اس طرح کے حالات ہو جائیں تو فکر اور غم ختم نہیں ہوتے ۔

آپ کا یہ کہنا ہے کہ ان کو حساس اداروں نے اٹھایا ہے جب ہم ان سے پوچھتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے نہیں اٹھایا یہ خود گئے ہیں ہم کیا آرڈر پاس کریں اگر کسی کی حراست غیر قانونی ہے اس کو ختم کرانا ہمارا فریضہ ہے اس حوالے سے کمیشن بھی مقرر ہو چکا ہے سپریم کورٹ کے ایک سینئر ترین جج کام کر رہے ہیں اگر حساس اداروں کے لوگ وہاں بیٹھتے ہیں تو ان کو بلانے کا مقصد معلومات کا حصول ہے آپ اس کو منفی تاثر نہ لیں ہم مقدمات کو تیزی سے نمٹانے کے لئے کمیشن کو بجھوا سکتے ہیں ہم اس کو کمیشن کو ارسال کر دیتے ہیں ۔

عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ اس حوالے سے کوئی انکوائری نہیں کرائی گئی ۔ کمیشن نے کبھی بھی سیکورٹی اداروں سے نہیں پوچھا کہ آپ نے کیوں اٹھایا ہے کمیشن کے پاس اختیارات بھی نہیں ہیں جسٹس ثاقب نے کہا کہ انکوائری نہیں کی جاتی ہم ان کے اختیار میں اضافہ کر سکتے ہیں ۔موثر حکم جاری کر سکتے ہیں اگر وہ اپنا کردار ادا نہیں کر سکتے تو پھر ہم انسانی حقوق سے متعلق اپنا اختیار استعمال کریں گے اگر کوئی غیر قانونی حراست میں ہے اس کو بازیاب کرائیں گے ۔

عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ ہم کافی بار انکوائری کمیشن کے روبرو پیش ہو چکے ہیں ان کے پاس اختیار نہیں ہے اور نہ ہی وہ کچھ کر سکتے ہیں یہاں تک کہ لوگوں کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے ۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ کیا ہم آرڈر جاری کریں کہ کیا پھر بھی لوگوں کو روکا جا سکتا ہے مسئلہ فورم کا ہے ہم کیا آرڈر جاری کریں ہم کیا شہادت ریکارڈ کریں ۔ عاصمہ نے کہا کہ فورم کا فیصلہ کریں آپ کے پاس آتے ہوئے ہم محفوظ ہوتے ہیں شہادتیں ریکارڈ نہیں کی جا رہی ہیں جسٹس ثاقب نے کہا کہ اس کو اس طرح سے چلا سکتے ہیں مفروضے پر رکھ کر حساس اداروں سے پوچھ لیتے ہیں کہ ان کے پاس حراست میں ہیں یا نہیں اگر موجود ہیں تو ان کو ان کے خاندانوں سے ملاقات کرا دیں گے اگر وہ انکار کر دیں تو پھر ہم کیا کر سکتے ہیں عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ ان معاملات میں دیر بہت لگ جاتی ہے مہینوں لگ جاتے ہیں بتایا گیا کہ تین ہارٹ اٹیک سے مر چکے ہیں اگر یہ دو سے تین ماہ میں بتا دیں ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ کیس دو سال بعد لگا ہے ۔ 3000 سے زائد لاپتہ افراد میں سے 1824 بازیاب ہوئے ہیں کمیشن کے اختیارات پر کوئی قدغن نہیں ہے گواہیاں تک ریکارڈ کر سکتا ہے اس میں کیا مسئلہ ہے کمیشن گواہیاں کیوں نہیں ریکارڈ کر رہا ہمیں اس بات کا احساس ہے یہ اہمیت کا معاملہ ہے لوگوں کی آزادی اور بنیادی حقوق کا معاملہ ہے آپ تجویز دیں کہ ہم کیا کریں ؟ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ انسان سے نہیں ادارے سے فرق پڑتا ہے اگر میں یہاں آؤں تو محفوظ ہوں ہم سے شہادت نہ لیں کمیشن کو بھجوا دیں ۔

دو ماہ میں رپورٹ دے دیں ۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ایک فہرست بنا دیں اس کو دو ہفتوں بعد لگا کر معاملات کا جائزہ لیں گے، عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ رپورٹ پہلے کیوں نہیں دیتے۔ ساجد بھٹی نے کہا کہ مارچ 2016 کے حوالے سے رپورٹ حساس اداروں نے ارسال کی ہے وہ پیش خدمت ہے جسٹس ثاقب نے کہا کہ جتنے بھی 35افراد لاپتہ ہیں ان کے حوالے سے حراستی مراکز سے پتہ کر کے بتا دیں کہ آپ کے مراکز میں ہیں یا نہیں ۔

باقی معاملات کا جائزہ لے لیں گے ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کا پتہ چل جائے اور تعداد کم ہو جائے ، ساجد بھٹی نے کہا کہ مارچ میں کمیشن نے 72 افراد کا معاملہ حل کیا ۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آپ کمیشن کی بات نہ کریں آپ 35 افراد کی بات کریں یہ کس ایجنسی کی تحویل میں ہیں یا نہیں ۔ ایک ایک شخص کے حوالے سے رپورٹ دے دیں عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ ایک ایک شخص بارے فہرست ارسال کر دوں گی ۔

چیف جسٹس نے حکم لکھوایا ۔ دو سال بعد کیس کی سماعت کے لئے لگایا گیا رپورٹ سماعت کے روز جمع کرانے پر ہم عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہیں درخواست گزار کا کہنا ہے کہ کوئی شہادت کمیشن ریکارڈ نہیں کر رہا ہے رپورٹ دی گئی ہے جس میں مارچ 2016 کا بتایا گیا ہے رپورٹ کو ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے ۔ عاصمہ جہانگیر ایک فہرست ساجد بھٹی کو دیں گی وہ اس فہرست کے مطابق حساس اداروں سے معلومات حاصل کریں گے کہ لاپتہ افراد کس ایجنسی کی تحویول میں ہیں ۔

وزارت دفاع دو ہفتے میں رپورٹ پیش کرے اس مقدمے کو مئی کے پہلے ہفتے میں سماعت کے لئے لگایا جائے ۔ایک اور درخواست گزار پیش ہوئے اور بتایا کہ انہوں نے توہین عدالت کی درخواست دائر کی تھی اس کو الگ کر کے سنا جائے ۔ مقدمہ درج تک نہیں کیا گیا اس کے حوالے سے آیا ہوں سپریم کورٹ اور کمیشن نے الگ الگ آرڈر جاری کئے تھے درخواست کا نمبر 89/2014 ہے ۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی درخواست پر حکم جاری کر رہے ہیں ایک اور لاپتہ شخص کے والد پیش ہوئے اورعدالت کو بتایا کہ ہمیں کہا جا رہا ہے کہ آپ کو ڈیڈ باڈی ملے گی تو آپ خوش ہوں گے وہ یہ کہتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے ۔ ایک اور لاپتہ شخص کے بھائی نے عدالت کو بتایا کہ12 جولائی 2009 کو میرے بھائی کے حوالے سے پتہ چلا تھا کہ ان کے بھائی کو ایف سی والے لے گئے تھے ۔

17 جولائی 2009 کو آئی ایس آئی کے حوالے کیا گیا اور یہ سب سرچ آپریشن کے ذریعے کیا گیا تھا اور دیگر گرفتار لوگوں میں ان کے بھائی بھی تھے ۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہاکہ کیس رجسٹر نہیں ہوا تو آپ بات کریں ۔ امیر اللہ نے کہا کہ جی ہاں مقدمہ درج نہیں کیا گیا ۔چیف جسٹس نے معاملہ نمٹاتے ہوئے اٹارنی جنرل پاکستان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے رپورٹ طلب کی ہے کہ ابھی تک کمیشن کے احکامات پر مقدمہ کیوں درج نہیں کیا گیا ۔

آمنہ مسعود نے عدالت کو بتایا کہ مسعود جنجوعہ میرے خاوند کا بھی مقدمہ تھا عمران منیر سے بیان مانگا تھا اس کا ایک خط رجسٹرار اور مصفطےٰ رمدے ،رزاق اے مرزا سمیت مجھے بھی ملا تھا عدالت نے کہا کہ آپ یہ لیٹر ریکارڈ میں جمع کرا دیں، جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ آپ کے خاوند کے حوالے سے جو رپورٹ سامنے آئی تھی اس میں واضح طور پر بتایا گیا تھا کہ وہ اب زندہ نہیں ہیں ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنا ریکارڈ جمع کرا دیں تو ہم مئی کے پہلے ہفتے میں سن لیں گے آمنہ مسعود نے کہا کہ میں بیرون ملک ہوں گی کوئی اور تاریخ دے دیں ۔ عدالت نے کہا کہ نہیں دے سکتے ۔ آمنہ مسعود نے کہا کہ ہمیں کمیشن کے سربراہ سے نہیں ملنے دیاجا رہا ہے بعض لوگوں کے حوالے سے رپورٹ دے دوں گی ۔ چھ سال ہو گئے ہیں کمیشن کو اتنا عرصہ نہیں لگانا چاہئے تھا چیف جسٹس نے کہا کہ لاپتہ افراد کے مقدمات میں اضافہ ہو رہا ہے اس لئے کمیشن مسلسل کام کر رہا ہے آمنہ نے کہ اکہ ان کو ان کی وجوہات کا پتہ چلانا چاہئے تھا ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کمیشن کے حوالے آپ جو کہنا چاہتی ہیں تحریری طور پر دے دیں ہم ابھی یہ مقدمات نمٹا نہیں رہے ہیں ادریس عباسی کو اٹھایا گیا تھا اور میں ان کا والد عارف عباسی ہوں ۔ چار ہزار سے زائد دن گزر چکے ہیں ان کا کوئی پتہ نہیں ہیں کوئی خصوصی حکم جاری کر دیں ۔ ممکن ہے کہ وہ شہید ہو چکے ہیں اور یہ مشرف دور کے ہیں عدالت نے کہاکہ ان کی الگ سے فہرست دے دیں ان کا جائزہ لیں گے آمنہ مسعود نے کہا کہ 779 افراد کے حوالے سے درخواستیں دی گئی تھی ان کو جسٹس جواد خواجہ سے 55 درخواستیں تیار کی تھیں جسٹس ثاقب نے کہا کہ جن لاپتہ افراد کا معاملہ ہماری ریاست اور اس کے اداروں سے ہیں اس حوالے سے اقدامات کریں گے ۔

ہر مقدمے ان کے لاپتہ افراد سے متعلق نہیں ہے میرے ایک دوست کے بیٹے کا پراپرٹی کا جھگڑا چل رہا تھا وہ غائب ہو گئے کئی خود تنظیموں کے ساتھ گئے ہمیں اس حوالے سے کہیں نہ کہیں فیصلہ کرنا پڑے گا کہ سب میں ریاستی ادارے ملوث ہیں یا نہیں ۔ اس حوالے سے معلومات ہیں تو دے دیں ۔ نصراللہ بلوچ پیش ہوئے اور انہوں نے بلوچستان کے حوالے سے کمیشن کی کارروائی پر تحفظات کا اظہار کیا ہے ہم نے شہادتیں ریکارڈ کرائیں اب وہ مقدمات خارج کئے جا رہے ہیں جسٹس ثاقب نے کہا کہ آپ کی قسم پر تو عدالتیں کام نہیں کر سکتیں ہم نے ٹھوس شہادت پر کارروائی کرنا ہوتی ہے ۔

نصراللہ نے کہا کہ قاضی حسین احمد کا بیان موجود ہے ہم ایسے نہیں کر رہے ہیں انہوں نے تین جون 2010 کو بیان دیا تھا انہوں نے بیان دیا تھا اور کہا تھا کہ میں نے کوئٹہ میں انتخاب لڑا تھا میرے حلقہ انتخاب سے ایک شخص غائب ہوا تو حساس ادار ے سے رابطہ کیا تھا محمد علی بنگلزئی کو لاپتہ کیا گیا تھا ہمیں تسلی دی گئی اور کپڑے بھی پہنچائے ۔ بریگیڈیئر صدیق سے ملاقاتیں ہوتی رہیں اور تسلی دی ۔

کمیشن نے اس بیان کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کی گئی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کمیشن کے حوالہ سے اگر کوئی شکایت ہے تو تحریری طور پر دے دیں ۔کمیشن کو تبدیل کرنا ہے یا نہیں اس کاجائزہ لیں گے ۔ نصراللہ نے بتایا کہ محمد خان اور مہران کو اٹھایا گیا تھا اس حوالے سے فوٹیج بھی موجود ہے اجتماعی قبروں کا معاملہ بھی عدالت میں موجود ہے ان کا ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کا حکم دیا گیا تھا اس حوالے سے ہوم سیکرٹری کو حکم دیا گیا تھا جنہوں نے ڈی این اے ٹیسٹ کرایا گیا تھا اس حوالے سے کوئی رپورٹ نہیں آ سکی ہے عدالت نے تاسف کے حوالے سے مقدمے کی سماعت کی اس کے والد نے بتایا کہ ملاقات دوبار ہو چکی ہے اب پھر ملاقات نہیں ہو رہی ہے ۔

مئی 2014 تک ملاقات رہی ہے اب نہیں ہے عدالت نے اس بارے بھی رپورٹ مانگ لی ہے ایک اور درخواست گزار پیش ہوئے اور بتایا کہ ان کے موکل کے بیٹے بھی لاپتہ ہیں ۔ 28 مارچ 2013 کے عدالتی حکم پر بھی عمل نہیں ہوا کراچی سے آئے ہوئے ایک درخواست گزار نے بتایا کہ جاوید اقبال سے ملاقات کی تھی اور لاپتہ افراد کے حوالے سے بات کی تھی ہمیں کہا گیا کہ آپ استخارہ کرا لیں چیف جسٹس نے کہا کہ ہم لاپتہ افراد کے مقدمات کا میرٹ پر فیصلہ نہیں کر رہے ہیں ہم جاننا چاہتے ہیں کہ ان لاپتہ افراد کو حساس اداروں نے اٹھایا ہے یا یہ اپنی مرضی سے گئے ہیں یا مارے جا چکے ہیں ہم نے ڈی اے جی کو نوٹ کرا دیا ہے یکم مئی کو رپورٹ دیں گے درخواست گزار نے بتایا کہ مارچ 2016میں 52افراد لا پتہ ہوئے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ تحریری درخواست دائر کریں زبانی بات پر کارروائی نہیں کرسکے ، بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت مئی کے پہلے ہفتہ کے لیے ملتوی کر دی