ملک بھر میں پانی کی کمی اورآلودہ پانی کی فراہمی جیسے مسائل درپیش ہیں، ان کے حل کے لئے مناسب منصوبہ بندی کی ضرورت ہے،پروفیسر ڈاکٹر سلیمان ڈی محمد

بدھ 6 اپریل 2016 20:40

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔06 اپریل۔2016ء ) وفاقی جامعہ اردو کے شعبہ ارضیات کے تحت پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز اور سوسائٹی آف اکنامک جیالوجی کے تعاون سے پانی کے عالمی دن کے حوالے سے ہونے والے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے و ائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سلیمان ڈی محمد نے کہا ہے کہ ملک بھر میں پانی کی کمی اورآلودہ پانی کی فراہمی جیسے مسائل درپیش ہیں، ان مسائل کے حل کے لئے مناسب منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

آلودہ پانی کے استعمال سے مہلک بیماریوں اور ان سے ہونے والے اموات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے ایم ڈی مصباح الدین نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں موجود پانی کے ذخائر میں سے صرف تین فیصد پانی قابل استعمال ہے جس میں سے ڈیڑھ فیصد گلیشئرز کی شکل میں منجمد ہے۔

(جاری ہے)

گلوبل وارمنگ پر تحقیق کرنے والے محققین کی رپورٹ کے مطابق آئندہ عالمی جنگ پانی کے مسئلے پر ہوسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی کی آبادی سواکروڑ سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ معاشی مسائل کی وجہ سے واٹر بورڈ کوپورے شہر میں یکساں طور پر صاف اور مسلسل پانی کی فراہمی میں مشکلات کا سامنا ہے ، ایسی صورتحال میں کراچی کی حدود کا تعین کرنا ضروری ہے۔ پروگرام کی صدارت کرتے ہوئے رکن سینیٹ اقبال خان نے کہا کہ پانی کو احتیاط سے استعمال کرنا چاہئے، جامعہ اردو کا شعبہ ارضیات ایسا معلوماتی پروگرام کرنے پر مبارکباد کا مستحق ہے اگلے مرحلے پر انہیں پانی کے مسئلے پر بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کرنا چاہئے۔

شعبہ ارضیات کے چئرمین سہیل انجم نے کہا کہ سیمینار سے لوگوں کی معلومات میں اضافہ ہوگا۔ یہ اہم مسئلہ ہے جسے ہر فورم پر اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔میانوالی، نگر پارکر اور بے شمار علاقوں میں جو پانی حیوانات کے بھی قابل نہیں اسے انسان پینے پر مجبور ہیں. پروگرام میں آغا خان یونیورسٹی کے ڈاکٹر ظفر فاطمی ، ڈائریکٹرPCRWRڈاکٹر غلام مرتضی، ڈپٹی ڈائریکٹر جیولوجیکل سروے ڈاکٹر روبینہ فردوس،ڈاکٹر سعدیہ خلیق اور ڈاکٹر وقار حسین نے بھی تحقیقی مقالہ جات پیش کئے۔

ڈاکٹر ظفر فاطمی نے کہا کہ آلودہ پانی کے استعمال کے باعث ہیضہ، ٹائیفائیڈ، پولیو اور ہیپاٹائیٹس اے اورای جیسی بیماریاں ہوتی ہیں جس کے باعث ترقی پذیر ممالک میں اموات کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہورہا ہے۔دنیا بھر میں4.1فیصد سالانہ افراد محض ڈائریا کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ڈاکٹر غلام مصطفی نے کہا کہ شہری پانی کے بل باقائدگی سے ادا نہیں کرتے جس سے واٹر بورڈ کو پانی کی صفائی اور تقسیم میں معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

کراچی میں 91فیصد پانی کے نمونے مائکروبائیولوجیکل لحاظ سے مضر صحت پائے گئے رپورٹ کے مطابق ان میں آرسینک، فلورائیڈ اور نائٹریٹ کی بڑی مقدار پائی گئی جس کے باعث کینسر، ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر جیسی بیماریاں ہورہی ہیں۔کراچی میں 30ہزار سالانہ اموات پانی کی آلودگی کی وجہ سے وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ڈاکٹر روبینہ فردوس نے کہا کہ حکومتی اداروں کو پانی صاف کرنے کے موثر اور جدید طریقے ٓاستعمال کرنا چاہئیں اور شہریوں کو پانی ضائع کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے۔

متعلقہ عنوان :