وزیراعظم نے پانامہ لیکس کے الزامات پر اعلیٰ سطحی عدالتی کمیشن قائم کرنے کا اعلان کردیا،عدالتی کمیشن کا سربراہ سپریم کورٹ کا جج ہوگا،الزامات لگانیوالے عدالتی کمیشن کے سامنے پیش ہوں،میں نے یا میرے خاندان نے حکومت میں یا حکومت سے باہر رہتے ہوئے رتی بھر کی خیانت نہیں کی ہے،کچھ لوگ سیاسی مقاصد کیلئے مجھے اور میرے خاندان کو نشانہ بنارہے ہیں،25سال پرانے الزامات کو آج پھر اچھالا جارہا ہے۔وزیراعظم محمد نواز شریف کا قوم سے خطاب

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ منگل 5 اپریل 2016 20:52

وزیراعظم نے پانامہ لیکس کے الزامات پر اعلیٰ سطحی عدالتی کمیشن قائم ..

اسلام آباد ( اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔05اپریل۔2016ء) :وزیراعظم محمد نواز شریف نے پانامہ لیکس کے الزامات پر اعلیٰ سطحی عدالتی کمیشن قائم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہاعلیٰ سطحی عدالتی کمیشن کا سربراہ سپریم کورٹ کا ریٹائرڈجج ہوگا، یہ کمیشن اپنی تحقیقات کے بعد فیصلہ دے گا کہ اصل حقیقت کیا ہے اور الزامات میں کتنا وزن ہے،گھسے پٹے الزامات دہرانے اور روز تماشا لگانے والوں سے کہتاہوں کہ وہ اس کمیشن کے سامنے جائیں اور اپنے الزامات ثابت کریں۔

آج رات پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں اپنی پوری سیاسی زندگی میں آ ج پہلی بار ذاتی حوالے سے کچھ کہنے کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔ مجھے ان گزارشات کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ ایک بار پھر، کچھ لوگ اپنے سیاسی مقاصد کے لیے مجھے اور میرے خاندان کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

(جاری ہے)

25 سالوں سے بار بار دھرائے جانے والے الزامات کو ایک بار پھر میڈیا پر اچھالا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں چند بنیادی حقائق آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ آپ خود اندازہ لگا سکیں کہ ان الزامات کی حقیقت کیا ہے۔ قیامِ پاکستان سے کئی سال قبل میرے والد صاحب نے لاہور سے کاروبار کا آغاز کیا اور اتفاق فاؤنڈری کی بنیاد ڈالی ۔ قیام پاکستان تک یہ ایک ماشاء اللہ مستحکم اور مضبوط صنعتی ادارہ بن چکا تھا۔ اس کی ایک شاخ ڈھاکہ یعنی مشرقی پاکستان میں بھی قائم ہو چکی تھی۔

معاشی طور پر مستحکم یہ صنعتی ادارہ ہزاروں خاندانوں کو روزگار کی فراہمی کا ذریعہ بن چکا تھا اور قومی خزانے میں ٹیکسوں کی صورت اپنا حصہ ڈال رہا تھا۔وزیراعظم نے کہا کہ 16دسمبر 1971 ء کو مشرقی پاکستان میں قائم اتفاق فاؤنڈریز سقوطِ ڈھاکہ کی نذر ہوئی۔ اس کے ٹھیک 15 دن بعد2 جنوری1972 ء کو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے لاہور میں جو ہماری قائم اتفاق فاؤنڈریز پر بھی قبضہ کر لیا جو اس وقت مغربی پاکستان میں سٹیل اور مشینری کی سب سے بڑی صنعت بن چکی تھی اور یوں 1936 ء سے ہمارے بزرگوں کی محنت، سرمایہ کاری اور جمع پونجی ایک لمحے میں ختم کر دی گئی۔

انہوں نے کہا کہ یہ ظلم و زیادتی ہمارے والد مرحوم کے عزم و حوصلہ میں کوئی کمزوری پیدا نہ کر سکی۔ کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر انہوں نے اللہ کا نام لے کر ایک بار پھر کمر باندھی اور بھٹو دور ہی میں 18 ماہ کے اندر اندر 6 نئی فیکٹریاں قائم کر لی۔ یہ وطن کی مٹی سے محبت، لگن ، عزم اور ہمت کی ایک ایسی روشن داستان ہے جس کی مثال کم ہی ملے گی۔وزیاعظم نے خطاب کرتے ہوئے مزیدکہا کہ اتفاق فاؤنڈریزجولائی1979 ء میں ہمیں کھنڈرات کی شکل میں واپس ملی۔

ہمارے والد نے تباہ شدہ مالی حالت والے اس اُجڑے ہوئے ڈھانچے کو دوبارہ ایک جاندار صنعتی ادارے کی شکل دی۔ انتہائی مشکل اور ناسازگار حالات میں عزم و ہمت کی اس داستان کا تعلق اس دور سے ہے۔ میرے ہم وطنوں جب میں نیا نیا یونیورسٹی کی تعلیم سے فارغ ہوا تھا اور میرا یا میرے خاندان کے کسی فرد کا سیاست یا حکومت سے دُور کا بھی تعلق نہ تھا۔ اس عرصے کے دوران یہ ادارے ملک کی معاشی ترقی میں ایک توانا کردار ادا کرتے ہوئے ملکی خزانے میں کروڑوں روپے کے ٹیکس اور محصولات جمع کراتے رہے اُس زمانے میں۔

انہوں نے کہا کہ جب ہم سیاست سے کوسوں دور تھے جو بھی ابتلاء اور آزمائش سے گزرنا پڑا اور سیاست میں آنے کے بعد بھی ہم سیاسی اور ذاتی انتقام کا نشانہ بنتے رہے۔ آپ میں سے بہت سے خواتین و حضرات کو یاد کو ہوگا کہ 1989 ء میں ہماری فیکٹری کا خام مال لانے والے بحری جہاز لاچار”جو ناتھن“ (اُس کا نام جوناتھن تھا) کو ایک سال تک سامان اتارنے کی اجازت نہ دی گئی جس سے ہمیں 50 کروڑ کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔

1889 کی بات کر رہا ہوں اُس کا 50 کروڑ شاید آج کے 50 ارب سے بھی زیادہ ہوں۔ پیپلز پارٹی کے دوسرے دور میں بھی ہمارے کاروبار کی معاشی ناکہ بندی اور مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے اتفاق فاؤنڈریز کی چمنیاں ٹھنڈی کر دی گئیں۔انہوں نے کہا کہ 1999 ء میں جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد جو کچھ ہوا اس سے آپ سب اچھی طرح واقف ہیں۔ 14 ماہ تک ہمیں جیلوں میں ڈالے رکھا گیا۔

ہمارے کاروبار کو ایک بار پھر تباہ کر دیا گیا مکمل طور پر اور یہاں تک کہ ماڈل ٹاؤن میں ہمارا آبائی گھر بھی چھین لی گئی۔ جہاں ہم ہمارے والدین اور ہمارے بچے رہتے تھے۔ ہمیں ملک بدر کر دیا گیا آپ کے آنکھوں کے سامنے یہ سب کچھ ہوا۔ حکومتی مشینری کو ہمارے کاروبار،بینک کھاتوں، صنعتی یونٹس اور دیگر معاملات کے بے رحمانہ احتساب پر لگا دیا گیا۔

یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ سال ہا سال تک ہم اس یک طرفہ احتساب کی پُلِ صراط پر چلتے رہے لیکن اللہ کے فضل و کرم سے ہمارے قدم نہ ڈگمگائے کبھی بھی نہیں الحمد اللہ۔ہم قانون اور انصاف کے ہر معتبر فورم سے سرخرو ہو کے گزرے۔ کسی بھی عدالت میں ہمارے خلاف کوئی الزام ثابت نہ کیا جا سکا۔وزیراعظم نے جلاوطنی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جبری جلاوطنی کے ایام میں ہمارے والد محترم نے ایک بار پھر مکہ معظمہ کے قریب سٹیل کا ایک کارخانہ لگایا اور یاد رہے کے ہمیں 7 سال باہر رہنا پڑا جس کے لیے سعودی بینکوں سے قرض حاصل کیا گیا۔

چند برس بعد یہ فیکٹری تمام اثاثوں سمیت فروخت کر دی گئی اور یہ وسائل حسن اور حسین نے اپنے نئے کاروبار کے لیے استعمال کیے۔ میں یہاں یہ بھی بتا دوں کہ حسن نواز 1994 ء سے لندن میں مقیم ہے جب کہ حسین 2000 ء سے سعودی عرب میں رہائش پذیر ہے۔ دونوں ان ممالک کے قوانین اور قوائد و ضوابط کے مطابق اپنا کاروبار کرتے ہیں۔ عجیب منطق ہے کہ ہمارے بچے ملک کے اندر رزقِ حلال کمائیں تو بھی تنقید اور اگر بیرونِ ملک محنت کر کے اپنا کاروبار قائم کریں اور اُس کو چلائیں تو بھی الزامات کی زد میں رہتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ میں صرف اتنا کہوں گا کہ کرپشن یا ناجائز ذرائع سے دولت جمع کرنے والے نہ تو اپنے نام پے کمپنیاں رکھتے ہیں اور نہ ہی اپنے اثاثے اپنے نام پے رکھتے ہیں۔انہوں نے قوم سے مخاطب ہوتے ہوئے کہاکہ میں آپ کے علم میں لانا چا ہتا ہوں کہ مختلف ادوار میں اتفاق فاؤنڈریز کی مکمل تباہی کے لیے بار بار کے حملوں کے باوجود میرے خاندان نے واجب الادا قرضوں کی ایک ایک پائی ادا کی جس کی مالیت تقریباً پونے چھ ارب روپے بنتی ہے۔

ہمارے خاندان نے اصل زر یا مارک اپ کا کبھی ایک پیسہ بھی معاف نہیں کرایا۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ہم نے تو وہ قرض بھی اتارے ہیں جو ہم پر واجب بھی نہ تھے۔انہوں نے اُمید کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے کاروبار کا یہ ساراپس منظر آپ پر واضح ہو گیا ہو گا۔ میں نے اس سفر کے تمام اہم مراحل سے آپ کو آگاہ کر دیا ہے۔صرف اتنا مزید کہہ دوں کہ حکومت سے باہر یا حکومت کے اندر ہوتے ہوئے میں نے یا میرے خاندان کے کسی فرد نے قومی امانت میں رتی بھر خیانت نہیں کی اورکبھی اقتدار کو کاروبار سے منسلک نہیں کیا۔

وزیراعظم نے کہاکہ میں بہت کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن انتہائی مختصر طور پر کچھ گزارشات پیش کی ہیں۔ میں نے وطن عزیز کو اندھیروں سے پاک کرنے اور تعمیر وترقی کی نئی بلندیوں کی طر ف لے جانے کا عہد کر رکھا ہے۔ میری تمام تر توجہ اس عہد پرمرکوز ہے۔ میرے پاس اتنا وقت نہیں کہ ہر روز الزامات کی یلغار کرنے والوں کو جواب دوں اور وضاحتیں پیش کروں۔

میں الزامات کی تازہ لہر کے مقاصد خوب سمجھتا ہوں لیکن اپنی توانائیاں اس کی نذر نہیں کرنا چاہتا۔انہوں نے کہاکہ میرے بعض رفقاء کا مشورہ تھا چونکہ میری ذات پر کوئی الزام نہیں ہے اور یہ کہ میرے دونوں بیٹے بالغ اور اپنے معاملات کے خود نگہبان ہیں اس لیے مجھے خود اس معاملے سے الگ رہنا چاہیے۔بعض رفقاء کا خیال تھا کہ میرے خطاب سے اس معاملے کو غیر ضروری اہمیت حاصل ہو جائے گی۔

کچھ رفقاء کا کہنا تھا کہ میر ی ذات یا میرے خاندان کے کسی فرد پر کسی غیر قانونی یا ناجائز کام کا کوئی الزام نہیں لگا اس لیے مجھے اس معاملے میں پڑنے کی ضرورت نہیں لیکن میرے عزیز اہلِ وطن میں چاہتا ہوں کہ اصل حقائق پوری طرح قوم کے سامنے آ جائیں اور ہر پاکستانی الزامات کی اصل حقیقت سے آگاہ ہو جائیں۔