کوئلے سے چلنے والے بجلی کے پلانٹس اور زہریلی گیسوں کے اخراج سے ماحولیاتی آلودگی سمیت موذی امراض تیزی سے پھیلنا شروع ہو گئے

انسانوں سمیت جانوروں میں بھی کینسر اور دل کے عارضہ میں مبتلا ہونیکا انکشاف ،رپورٹ

اتوار 3 اپریل 2016 16:43

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔03 اپریل۔2016ء) کوئلے سے چلنے والے بجلی کے پلانٹس اور زہریلی گیسوں کے اخراج سے ماحولیاتی آلودگی سمیت موذی امراض تیزی سے پھیلنا شروع ہو گئے ہیں۔ انسانوں سمیت جانوروں میں بھی کینسر اور دل کے عارضہ میں مبتلا ہونیکا انکشاف ہوا ہے۔ پاکستان میں کوئلے سے چلنے والے بجلی کے پلانٹس گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں اضافے کا باعث بنتے ہیں‘ پاکستان میں اراضی کے استعمال کی موزوں پالیسی اور اس پر بھرپور طریقے سے عمل درآمد ضروری ہے تاکہ زرخیز زمین کو کئی طرح کے غلط استعمال سے محفوظ رکھا جا سکے۔

تبدیلی آب و ہوا کے باعث معیشت کے مختلف شعبوں میں سب سے زیادہ بوجھ زراعت پر پڑ رہا ہے جو بڑھتے ہوئے درجہ حرارت‘ بالترتیب بارشوں اور انتہائی سردی اور گرمی کی لہروں کے ہاتھوں سب سے زیادہ خطرات سے دو چار ہے ایک رپورٹ کے مطابق زرعی شعبے کو درپیش خطرات اس سے جڑے دوسرے شعبوں لائیو سٹاک اور ذرائع معاش پر اپنا اثر دکھاتے ہیں تو تبدیلی آب و ہوا کے اصل متاثرین مثلاً کوئلے کا استعمال ترقی پذیر ملکوں کی جانب سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں شدید تشویش کا باعث بنا ہوا ہے کاربن کا اخراج کرنے پر کسی سمجھوتے کی راہ میں ایک نہ ختم ہونے والا مسئلہ درپیش ہے اس کام میں چین بھارت برازیل اور ایشین فیڈریشن جیسے ملکوں کی شرح افزائش پر سمجھوتہ نہ کرنا پڑے قابل تشویش بات یہ ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کار سستے خام تیل اور افرادی قوت کی تلاش میں ترقی پذیر ملکوں میں جا کر ڈیرے ڈالتے ہیں جہاں ماحولیاتی تحفظ کے قوانین ان پر کوئی پابندیاں عائد نہیں کرتے یا برائے نام پابندیاں لگاتے ہیں توانائی کی مانگ کو پورا کرنے کے لئے کوئلے اور فوسل ایندھن کا استعمال بڑھتا چلا گیا ہے جن کا مقصد سماجی فلاح کو بہتر بنانا نہیں بلکہ کارپوریٹ منافع کو حتی الوسع حد تک بڑھانا مقصود ہے۔

(جاری ہے)

موسمی واقعات کے باعث زرعی پیداوار میں کمی خوراک کی عدم تحفظ غربت اور سماجی و سیاسی عدم استحکام کو پہلے سے بلند کر سکتی ہے مزید ترقی پذیر ملکوں کی آبادی میں اضافہ 2 فیصد اوسطاً سالانہ ہے درجہ حرارت میں اضافہ اور آبپاشی کے لئے پانی کی دستیابی میں کی پیداواری صلاحیت کو کم کرتی ہے جس کے باعث خوراک کی دستیابی پر براہ راست منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں 2010-11ء میں اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں اضافے سے مزید 44 ملین کے لئے یہ خطرہ مزید بڑھ گیا شدید موسم اور آب و ہوا سے پاکستانی زراعت قریب المرگ ہو جاتی ہے اور لائیو سٹاک کی پیدوار برائے نام رہ جاتی ہے۔

اور یوں جلتی پر تیل کا کام دیا ہے۔ طرز زندگی ڈھالنے کے ایسے نظام جن میں فالتو صنعتی مواد سے نمٹنے کے اقدامات کو مرکزی حیثیت حاصل ہو‘ تشکیل دینا ان چند شعبوں میں شامل ہے جنہیں اولین ترجیح دینے کی ضرورت ہے پاکستان میں اراضی کے استعامل کی موزون پالیسی اور اس پر بھرپور طریقے سے عمل درآمد بھی ضروری ہے تاکہ زرخیز زمین کو کئی طرح کے غلط استعمال سے محفوظ رکھا جا سکے جس میں ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے لئے اراضی کے استعمال بھی شامل ہے اس کے ساتھ ساتھ تعمیراتی ڈھانچے پر موثر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔

اینٹوں کے بھٹوں‘ فضلاتی مواد‘ تازہ پانی کے ذخائر میں پھینکنے اور صحت سے متعلق دیگر خطرات کے خلاف ایڈووکیسی کی ضرورت ہے یہ تبھی ممکن ہے کہ ماحولیاتی تحفظ کے قانونی ڈھانچے کو کمیونیٹیز کی بدلتی ضروریات سے زیادہ ہم آہنگ بنایا جائے۔ جبکہ ڈاکٹر تنویر اور وسیم خواجہ کے مطابق گردے‘ سانس کی نالی خوراک کی نالی‘ پھیپھڑے بری طرح سے متاثر ہوتے ہیں فضاء میں شامل ہونے والا دھواں اور کیمکلز مختلف اقسام کے کینسر کی بھی ایک بڑی وجہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ کوئلے کا استعمال اور مناسب اخراج نہ ہونا صحت کے لئے انتہائی مضر ہے۔ جب دھواں سانس کے ذریعے اندر جاتا ہے تو سانس کی بیماریاں اور آکسیجن کی کمی کا باعث بنتا ہے۔ ایسے پلانٹس جہاں ایندھن کے طور پر کوئلے کا استعمال ہوتا ہے اس میں کام کرنے والوں کو خصوصی لباس کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اس کے مضر اثرات سے بچا جا سکے۔ ان پلانٹس سے خارج ہونے والا دھواں فضائی آلودگی کے ساتھ دل کی بیماریوں کی بھی ایک بڑی وجہ ہے۔(رضوان شاہ/ میمونہ)

متعلقہ عنوان :