پاک چین دوستی کو دنیا بھر میں مثالی خیال کیا جارہا ہے ،یان ژوئی ٹونگ

امریکہ ۔ چین اتحاد کے پاک چین دوطرفہ تعلقات پر مثبت اثرات مرتب ہو نگے اتحادوں کے قیام سے چین کو پاکستان کے ضمن کی طرح دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی پاکستان کا امریکہ سے بھی اس کا اتحاد ہے ، پاکستان سے متعلقہ مسائل کے سلسلے میں بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان کوئی انحراف نہیں ہے چین اور امریکہ کے درمیان بنیادی مفادات کے تنازعات مسلسل بڑھ رہے ہیں ،اب تک اس معمہ کا کوئی حل نہیں ہے

اتوار 3 اپریل 2016 16:04

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔03 اپریل۔2016ء ) امریکہ کے ساتھ چین کے اتحاد اور بین الاقوامی و علاقائی مسائل کے بارے میں ان کے متفقہ موقف کے پاک چین دوطرفہ تعلقات پر مثبت اثرات مرتب ہو ں گے ۔ان خیالات کا اظہار ٹسنگہوا میں انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز کے ڈائریکٹر یان ژوئی ٹونگ نے صدر ژی جن پنگ کے حالیہ دورہ امریکہ کی روشنی میں چین امریکہ تعلقات کے نئے مرحلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کیا ہے ۔

انہوں نے اس رائے کا اظہار کیا کہ سمندر پار اتحادوں کے قیام سے چین کو پاکستان کے ضمن کی طرح دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی ۔ ان دونوں ممالک کے بڑھتے ہوئے تعلقات کو دنیا بھر میں مثالی قراردیا جارہا ہے ، یہ تبصرے یان کے حالیہ لیکچر ’’ چین کے عروج اور بدلتے ہوئے بین الاقوامی ماحول کیلئے حکمت عملیاں ‘‘ کی بنیاد رپر ہیں ، یہ لیکچر جریدہ پیپلز ڈیلی کے زیر اہتمام شائع ہونیوالے چینی ٹیبلائیڈ ’’ گلوبل ٹائمز ‘‘ میں شائع ہوئے ہیں ، ان کو یقین ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان وابستگی کئی تنازعوں کا حل ہے ،مثال کے طورپر پاکستان نے نہ صرف چین سے اتحاد کررکھا ہے بلکہ امریکہ سے بھی اس کا اتحاد ہے ، پاکستان سے متعلقہ مسائل کے سلسلے میں بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان کوئی انحراف نہیں ہے ، اگر چین امریکہ کے کسی واحد حلیف سے اتحاد کر سکتا ہے تو دونوں کے درمیان اختلافات ہونگے لیکن چین کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ امریکی اتحادیوں کا حلیف نہیں بننا چاہتا ہے ۔

(جاری ہے)

یان ژون ٹونگ کے مطابق بعض کا کہنا ہے کہ اتحاد قائم کرنا سرد جنگ کی ذہنیت ہے ، اس کے برعکس یہ غیر وابستگی ہے جو سرد جنگ کی ذہنیت کی مظہر ہے ، غیر وابستگی کی تجویز بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو ، مصرکے دوسرے صدر جمال عبد الناصر اور یوگو سلاویہ کے اس وقت کے صدر جوزف بروز ٹیٹو نے پیش کی تھی اور غیر وابستہ سربراہان مملکت یا حکومت کی سب سے پہلی کانفرنس جس میں 25ممالک نے نمائندگی کی ، ستمبر 1961ء میں طلب کی گئی تھی ، غیر وابستہ تحریک کا قیام سرد جنگ کے دوران عمل میں آیا لہذا اس کی سرد جنگ کی ذہنیت ہے جبکہ اتحادوں کی تشکیل قدیم زمانے سے محض انسانی فطرت ہے ، غیر وابستگی کی بنیاد دوسرے ممالک کو سلامتی کی یقین دہانی کر انا نہیں ہے ، غیر وابستہ تحریک کے تمام رکن ممالک چھوٹی اور درمیانے درجے کی معیشتیں ہیں اور بڑی طاقتیں اس قسم کے معاملوں میں کبھی نہیں الجھی ہیں ، اگر چین غیر وابستگی پر انحصار کرتا ہے تو پھر وہ اپنے جذبہ خیر سگالی اورعدل کا کس طرح اظہار کر سکتے ہیں ، انہوں نے کہ استفسار کیا ، کیا ہم دنیا کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ چین مضبوط تر ہوتا جارہا ہے لیکن وہ کبھی آپ کی سلامتی کا تحفظ نہیں کرے گا ، فی الوقت ہمیں اس پر غور کرنا چاہئے کہ اس دباؤ کا کس طرح سامنا کیا جائے جو چین کے عروج کی وجہ سے پیدا ہوا ہے ، یہ درست ہے بیجنگ اور واشنگٹن اس وقت کوشش کررہے ہیں کہ وہ دوست ہونے کا بہانہ کر کے ایک دوسرے کے ساتھ کشیدگی کم کریں تا ہم یہ حکمت عملی بظاہر قابل عمل نہیں ہے ، بنیادی وجہ یہ حقیقت ہے کہ اس دو طرفہ تعلقات کی بنیاد تعاون کی بجائے مسابقت ہے ، تعاون اپنی مسابقت کو بد ترین ہونے سے بچانے کا محض ایک طریقہ ہے اور مسابقت کو کلیتاً تعاون میں تبدیل کرنا ناممکن ہے لہذا میری یہ تجویز ہے کہ یہ اعتراف کیا جائے کہ ہم مسابقتی ہیں اور چین امریکہ تعلقات کو صحت مندانہ مسابقت کی راہ پر گامزن کیا جائے ، چین اور امریکہ کے درمیان بنیادی مفادات کے تنازعات مسلسل بڑھ رہے ہیں ،اب تک اس معمہ کا کوئی حل نہیں ہے ، ہم جو کچھ کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ ان تنازعات کو جنگ کا رخ اختیار کرنے سے بچایا جائے تا ہم بنیادی مفادات کے تنازعات کے بغیر تعلقات پر عمل کرنا ناممکن ہے یہ ایسا ہے جیسے آپ دو طالبعلموں کو وظیفے پر لڑائی سے روکیں تاہم آپ ان کو اس کے لئے مقابلہ کرنے سے نہیں روک سکتے۔

انہوں نے کہا کہ نظریاتی تنازعات کی بجائے بیجنگ اور واشنگٹن کے بجائے اہم تنازعے کی وجہ بنیادی مفادات کے تنازعات ہیں ۔