قائمہ کمیٹی سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے پاکستان انجینئرنگ کونسل ترمیمی بل اگلے اجلاس تک کیلئے موخر کردیا

جمعہ 1 اپریل 2016 16:14

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔یکم اپریل۔2016ء) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے اجلاس میں ریکٹر کامسیٹس این ٹی ایس کے سربراہ کی جعلی ڈگری کے حوالے سے معقول جواب نہ دے سکے ،سوال کرنے والی ممبر غیر مطمئن نظر آئیں‘ ریکٹر کامسیٹس جنید زیدی نے کہا کہ جعلی ڈگری کے حوالے سے ابھی تک یونیورسٹی کی جانب سے آگاہ کیا گیا یونیورسٹی نے کہا کہ یہ کیس عدالت میں ہے اس کے بعد بتایا جائے گا‘ کمیٹی نے کہا کہ کیسی یونیورسٹی ہے جو اپنے طالب علم کی ڈگری کی تصدیق نہیں کرسکتی‘ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ مجھے یہ بات ہضم نہیں ہورہی ہے کہ ادارہ بغیر کسی نفع اور نقصان کے چل رہا ہے‘ کمیٹی نے این ٹی ایس کو ہدایت کی کہ جو ٹیسٹ بھی لیا جائے گا اسی دن ٹیسٹ کا نتیجہ انٹرنیٹ پر این ٹی ایس کی ویب سائٹ پر ہونا چاہئے‘ کمیٹی نے ممبران کے سوالوں کے جوابات بھی اگلے اجلاس میں مانگ لئے‘ این ٹی ایس پوری تیاری سے آئے ۔

(جاری ہے)

کمیٹی نے ہدایت کی کہ جو ادارہ رزلٹ ویب سائٹ پر دینے سے روکے اس کا ٹیسٹ ہی نہ لیا جائے،اجلاس میں پاکستان انجینئرنگ کونسل ترمیمی بل 2016 کو اگلے اجلاس تک کیلئے موخر کردیا۔ ا نجینئر عثمان خان ترکئی نے کہا کہ دو برس پہلے تک بیرون ملک مقیم انجینئرز کو پاکستان انجینئرنگ کونسل کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا حق حاصل تھا مگر دو سال ہوگئے ہیں سمندر پار انجینئرز سے یہ حق چھین لیا گیا ہے جس پر کمیٹی چیئرمین نے کہا کہ دو برس قبل تھا تو ابھی بھی ہونا چاہئے۔

اگر اس بل میں اس کی گنجائش ہوتی تو ضرور اس شق کو شامل کیا جائے ورنہ نیا بل لایا جائے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی چوہدری طارق شبیر چیمہ کی صدارت میں ہوا۔ اجلاس میں ریکٹر کامسیٹس جنید زیدی کی بریفنگ کے دوران ممبران کمیٹی نے سوال اٹھایا کہ سکالر شپس میں کمیٹی ممبران کی جانب سے اگر کسی غریب طالب علم کی سفارش کی جائے تو این ٹی ایس اسے بھی سکالر شپ فراہم کرے جس پر ریکٹر کامسیٹس نے حامی بھرلی اور کہا کہ 350 سکالر شپس کے علاوہ ہم الگ سے ان طلباء کو سکالر شپس دیں گے۔

ریکٹر کامسیٹس نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ فاٹا کے تین سو طلبا کو سالانہ فی کس ساٹھ ہزار روپے سکالر شپ دی جاتی ہے۔ 2002 میں کمیٹی ایکٹ کے تحت این ٹی ایس کا ادارہ بنا اور 220 ملازمین کے ساتھ اس وقت کام کررہا ہے۔ این ٹی ایس ہونیوالی آمدن میں سے صرف 20 فیصد حصہ بچت ہوتی ہے‘ 80 فیصد آمدن سے اخراجات ہوتے ہیں۔ ہمارے بہت کم لوگ تنخواہ لیتے ہیں۔ ممبر کمیٹی عالیہ کامران نے سوال پوچھا کہ این ٹی ایس کے سربراہ ی ڈگری جعلی ہے جس پر ریکٹر کامسیٹس تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔

کمیٹی ممبر علی محمد خان نے کہا کہ کئی ایسی یونیورسٹیاں ہیں جو ڈگریاں بیچتی ہیں اور این ٹی ایس میں ٹیسٹ کیلئے افراد بھی انہی کی طرف سے فراہم کئے جاتے ہیں۔ لعل چند ملہی نے کہا کہ امتحانوں کے لئے بنائے جانے والے پرچہ جات کا معیار کیا ہے؟ جس پر ریکٹر کامسیٹس نے جواب دیا کہ 10ہزار سے زائد امتحان لینے والے لوگوں کو تربیت دی گئی ہے جو امتحان کو بہترین انداز میں منعقد کرتے ہیں ملک میں بارہ ادارے ہیں جو ٹیسٹ کا انعقاد کرتے ہیں مگر این ٹی ایس ایک دن میں تین لاکھ لوگوں کا ٹیسٹ منعقد کرانے کی اہلیت رکھتا ہے۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اداروں کو ہرگز اختیار نہ دیا جائے کہ وہ رزلٹ کو روکیں جب بھی رزلٹ آئے ویب سائٹ پر رزلٹ ہونا چاہئے۔ ریکٹر کامسیٹس جنید زیدی نے کہا کہ ہم اس ادارے کو کامسیٹس کی نگرانی میں چلانا چاہتے ہیں مگر اس کے خلاف کچھ لوگ عدالت میں چلے گئے دوبارہ اس پر کوشش کی جارہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور ایس ای سی پی کے ساتھ اس معاملے پر تبادلہ خیال جاری ہے 30جون 2016 تک یہ معاملہ حل کرلیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ کبھی پیسہ کمانے کے لئے این ٹی ایس کو استعمال نہیں کیا گیا بلکہ لوگوں کی رہنمائی کیلئے ادارہ بنایا گیا اگر کسی ملازمت کیلئے لوگ زیادہ ہوتے ہیں تو پیسے کم لئے جاتے ہیں اگر تعداد کم ہو تو اخراجات کے مطابق فیس لی جاتی ہے۔ 33ہزار ملازمتوں کیلئے سات لاکھ افراد نے ٹیسٹ دیا اور ہر شہری کو فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں۔ چیئرمین کمیٹی نے ہدایت کی کہ اگلے اجلاس میں پاکستان تیسٹنگ سروس کو بھی بلایا جائے سیکرٹری سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فضل عباس میکن نے کہا کہ تمام ٹیسٹنگ سروسز کے لئے ریگولیٹری اتھارٹی بنائی جائے تاکہ ان کی کارکردگی کا جائزہ لیا جاسکے اجلاس میں پاکستان انجینئرنگ کونسل ترمیمی بل 2016 کو اگلے اجلاس تک کیلئے موخر کردیا۔

اس موقع پر انجینئر عثمان خان ترکئی نے کہا کہ دو برس پہلے تک بیرون ملک مقیم انجینئرز کو پاکستان انجینئرنگ کونسل کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا حق حاصل تھا مگر دو سال ہوگئے ہیں سمندر پار انجینئرز سے یہ حق چھین لیا گیا ہے جس پر کمیٹی چیئرمین نے کہا کہ دو برس قبل تھا تو ابھی بھی ہونا چاہئے اگر اس بل میں اس کی گنجائش ہوتی تو ضرور اس شق کو شامل کیا جائے ورنہ نیا بل لایا جائے۔

متعلقہ عنوان :