آئندہ اسلام آباد کے ریڈ زون اور ڈی چوک پر کسی قسم کا جلسہ کرنے کی اجازت نہیں ہوگی ، جلسے پر پابندی کیلئے پارلیمنٹ سے منظوری لی جائیگی ، چوہدری نثار علی خان

دھرنے کے شرکاء سے کسی قسم کا کوئی تحریری معاہدہ نہیں ہوا، دھرنے کے شرکاء کو روکنے میں ناکامی کی تحقیقات کیلئے کمیٹی قائم کر دی گئی ہے جو 7 روز میں اپنی رپورٹ پیش کریگی ،وزیر داخلہ راولپنڈی اسلام آباد میں اس وقت 1070 افراد گرفتار ہیں ان میں جو لوگ توڑ پھوڑ ، جلاؤ گھیراؤ اور انتشار پھیلانے میں ملوث نہ ہوئے انہیں تحقیقات کے بعد رہا کر دیا جائیگا ، پریس کانفرنس

بدھ 30 مارچ 2016 21:53

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔30 مارچ۔2016ء) وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اعلان کیا ہے کہ آئندہ اسلام آباد کے ریڈ زون اور ڈی چوک پر کسی قسم کا جلسہ کرنے کی اجازت نہیں ہوگی ، جلسے پر پابندی کیلئے پارلیمنٹ سے منظوری لی جائیگی ، دھرنے کے شرکاء سے کسی قسم کا کوئی تحریری معاہدہ نہیں ہوا، دھرنے کے شرکاء کو روکنے میں ناکامی کی تحقیقات کیلئے کمیٹی قائم کر دی گئی ہے جو 7 روز میں اپنی رپورٹ پیش کریگی ، راولپنڈی اسلام آباد میں اس وقت 1070 افراد گرفتار ہیں ان میں جو لوگ توڑ پھوڑ ، جلاؤ گھیراؤ اور انتشار پھیلانے میں ملوث نہ ہوئے انہیں تحقیقات کے بعد رہا کر دیا جائیگا،مظاہرین پر کئے گئے مقدمات بہت سخت ہیں ۔

بدھ کی شب پنجاب ہاؤس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ گزشتہ رات ہونیوالی پریس کانفرنس میں بہت سے سوالات رہ گئے تھے جن کا جواب آج دونگا۔

(جاری ہے)

ڈی چوک سے دھرنے کے شرکاء کو ہٹانے کیلئے جب ساڑھے پانچ بجے آپریشن کا فیصلہ کیا گیا اور فورسز الرٹ ہو گئیں تو کراچی سے آنیوالی دو مذہبی شخصیات نے انتظامیہ سے رابطہ کیا اور ان کا موقف تھا کہ حکومت پنجاب نے نیک نیتی سے چہلم کا اجازت نامہ جاری کیا تھا بریلوی مکاتب فکر کے اکابرین نے اس کی پاسداری کی چند لوگوں نے اس اجتماع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلام آباد کی طرف مارچ شروع کر دیا اس سے کسی کی نیک نامی نہیں ہوئی وزارت داخلہ نے ایک کمیٹی کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ہے جو 7 روز میں اپنی رپورٹ دے گی وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے ساتھ ہونیوالی میٹنگ میں یہ طے کیا گیا ہے کہ اس قسم کی انکوائری پنجاب میں بھی کی جائیگی ۔

انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے ہونیوالے دھرنے کے بعد بھی وزارت داخلہ کی طرف سے ایک تجویز دی گئی تھی کہ ڈی چوک کو جلسہ گاہ بنانے پر ہمیشہ کیلئے پابندی لگائی جائے ڈی چوک میں جلسہ گاہ بنانے کا عمل جنرل ضیاء الحق کے زمانے سے شروع ہوا جو بے نظیر بھٹو دور میں بھی جاری رہا اور انسانی جانیں بھی ضائع ہوئیں ۔ چوہدری نثار نے کہا کہ میں نے بطور وزیر داخلہ فیصلہ کیا ہے کہ ڈی چوک کو ہر قسم کے جلسہ کیلئے پابندی عائد کر دی جائے اب وہاں کسی قسم کا کوئی سیاسی و مذہبی جلسہ وغیرہ نہیں ہو گا اس حوالے سے وہاں کچھ کنسٹرکشن کی ضرورت ہو گی اب وقت آ گیا ہے کہ یہ فیصلہ کر لیں کہ کسی صورت بھی ڈی چوک کو جلسے کیلئے استعمال نہیں کرنے دیا جائیگا کوئی گروہ یا جماعت اگر یہاں آ جاتی ہے تو وہ ریاست کو گلے سے پکڑ لیتی ہے اور یرغمال بنا لیتی ہے ۔

پارلیمنٹ کی منظوری سے یہاں پر فزیکل تبدیلیاں کی جائیں گی جس سے پولیس کو وہاں آنیوالوں کو روکنے میں آسانی ہو۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ کل رات کو اصولی طور پر فیصلہ ہو گیا تھا کہ پولیس رینجرز اور ایف سی کی کارروائی کے تحت اس علاقے کو خالی کرایا جائیگا اور یہ کام دن کی روشنی میں بدھ کو کیا جائیگا پہلے چار بجے اور پھر پانچ بجے تک اس کارروائی کو موخر کیا گیا لیکن چھ بجے یہ فیصلہ ہوا کہ یہ لوگ یہاں سے اٹھ جائیں گے ۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ ہر شخص جس نے قانون توڑا اس کیخلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائیگی راولپنڈی اسلام آباد میں 1070 لوگ گرفتار کئے گئے ہیں جنہوں نے غیر قانونی کام نہیں کیا اور توڑ پھوڑ نہیں کی انکی تحقیق کر کے انکو چھوڑ دیا جائیگا لیکن قانون توڑنے والوں سے کوئی رعایت نہیں کی جائیگی جن لوگوں نے میٹرو سٹیشن ، سیف سٹی کے کیمرے توڑے ، فائر بریگیڈ کی گاڑی کو آگ لگائی اور سرکاری اہلکاروں پر حملے کئے ، لاہور سے اٹک تک ایسے تمام لوگوں کیخلاف کارروائی ہو گی ۔

ایک سوال کے جواب میں وزیر داخلہ نے کہا کہ دھرنے والوں سے کوئی تحریری معاہدہ نہیں ہوا ہمارا کوئی سیاسی نمائندہ وہاں نہیں گیا صرف انتظامیہ نے ملاقات کی ہے دھرنے کے رہنما وفاقی وزرا اسحاق ڈار اور خواجہ سعد رفیق سے اپنی خواہش پران سے ملے ۔ انہوں نے کہا کہ دھرنے کے شرکاء کیخلاف کارروائی کیلئے پولیس کو کچھ تیاری کرنی تھی پیر کو یہ فیصلہ ہوا کہ دھرنے کے شرکاء کو ہٹانے کیلئے کارروائی کی جائیگی منگل کو سیکیورٹی اہلکار اسلام آباد پہنچے حکومت نے واضح کر دیا تھا کہ قانون کی عملدرآمد کو یقینی بنانا ہے جس نے بھی اچھا کردار ادا کیا اس کو سراہنا چاہئے ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ برطانوی پارلیمنٹ کے سامنے مظاہرہ قانون کے اندر رہ کر ہوتا ہے اسلام آباد میں جلسے کی اجازت اسلام آباد انتظامیہ دیتی ہے اب کسی کو اجازت نہیں ہو گی کہ وہ ڈی چوک میں جلسہ کرے ۔ انہوں نے کہا کہ 295-C میں ترمیم پر نہ ہم نے سوچا ہے اور نہ ہی کوئی اس حوالے سے کوئی چیز زیر غور ہے علمائے کرام کے فورتھ شیڈول میں نام ڈالے گئے اس پر کچھ تحفظات تھے اس حوالے سے مولانا فضل الرحمان وزیراعظم سے بھی ملے ہیں ۔

تمام صوبوں سے ہم کواری نیٹ کرتے ہیں علامہ ساجد نقوی صاحب کا نام بھی فورتھ شیڈول میں ڈالا گیا اور جب مجھے پتہ چلا تو میں نے کہا کہ وہ انتہاء قابل احترام شخصیت ہیں ان کا نام کیوں ڈالا گیا ہے ۔ پچھلے تین چار مہینوں سے فورتھ شیڈول میں ڈالے گئے ناموں کی تعداد میں کمی ہوئی ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ چہلم کے حوالے سے ایک تحریری معاہدہ حکومت پنجاب سے کیا گیا اس کی خلاف ورزی پر کارروائی ہو گی میڈیا نے اس حوالے سے نہایت مثبت کردار ادا کیا ہے اور قوم کو تقسیم کرنے کے عمل کو ناکام بنایا ہے اور انتہاء ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے جہاں تک دھرنے کے رہنماؤں کا میڈیا پر الزامات کا تعلق ہے پیمرا موجود ہے پیمرا جانے اور وہ جانیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کچھ عرصہ قبل سکھ اجازت کے تحت پارلیمنٹ کے سامنے احتجاج کیلئے آئے لیکن گیٹ توڑا اس پر غفلت برتنے والوں کیخلاف حکومت نے کارروائی کی ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جن ریستوران نے دھرنے کے شرکاء کو اشیاء فراہم کیں ان کیخلاف کارروائی ہو گی ۔ ایک اور سوال کے جواب میں وزیر داخلہ نے کہا کہ دھرنے کے شرکاء نے سرکاری اہلکاروں سے جو بھی اشیاء چھینی تھیں وہ برآمد کر لی گئی ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ فورتھ شیڈول کا عمل تین ماہ سے جاری ہے اس میں 8 ہزار سے زائد لوگوں کا ڈیٹا تھا جس پر نظر ثانی کی گئی اور چند سو لوگوں کو اس میں نکالا گیا اور چند کا اضافہ کیا گیا ۔ موبائل فون سروس بند کرنے پر وزیر داخلہ نے ایک مرتبہ پھر معذرت کرتے ہوئے کہا کہ موبائل فون سروس صرف پانچ دس کلو میٹر کے علاقے میں بند کی گئی تھی لیکن بعض سیلولر کمپنیوں کے ٹاور 25 کلو میٹر تک کی رینج کو کوریج دیتے ہیں جس کی وجہ سے دیگر علاقوں کے لوگوں کو پریشانی ہوئی آئندہ کیلئے یہ یقینی بنایا جائیگا کہ ضرورت پڑنے پر صرف متاثرہ علاقے میں سروس بند ہو۔