’’را‘‘ کے حاضر سروس افسر کی گرفتاری سے بھارت کا دہشت گردانہ چہرہ پھر بے نقاب ہو گیا،دشمن کو دوست سمجھنا سیاست نہیں جہالت ہے،حکمران جس بھارت سے دوستی کا دم بھرتے ہیں وہی ہمارے ملک میں دہشتگردی کو فروغ دے رہا ہے،تحفظ نسواں بل بیرونی قوتوں کی خوشنودی کیلئے انتہائی عجلت میں منظور کیا گیا ، نبی اکرمؐ کے قائم کردہ معاشرے میں عورت کو سب سے زیادہ حقوق ملے

امیر جماعۃالدعوۃ پاکستان پروفیسر حافظ محمد سعید کانماز جمعہ کے اجتماع سے خطاب

جمعہ 25 مارچ 2016 18:54

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔25 مارچ۔2016ء) امیر جماعۃالدعوۃ پاکستان پروفیسر حافظ محمد سعید نے کہا ہے کہ بلوچستان میں ’’را‘‘ کے حاضر سروس افسر کی گرفتاری سے انڈیا کا دہشت گردانہ چہرہ ایک بار پھر بے نقاب ہو گیا۔دشمن کو دوست سمجھنا سیاست نہیں جہالت ہے۔ حکمران جس بھارت سے دوستی کا دم بھرتے ہیں وہی یہاں تخریب کاری اور دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے۔

تحفظ نسواں بل بیرونی قوتوں کی خوشنودی کیلئے انتہائی عجلت میں منظور کیا گیا۔ نبی اکرم ؐ کے قائم کردہ معاشرے میں عورت کو سب سے زیادہ حقوق ملے۔معاشروں سے ظلم و تشدد کا خاتمہ اور عدل و انصاف کا قیام اسلامی شریعت پر عمل درآمد سے ہی ممکن ہے۔جامع مسجد القادسیہ میں خطبہ جمعہ کے دوران انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں راکا حاضر سروس افسر گرفتار کیا گیا ہے جس نے علیحدگی کی تحریکیں اور فرقہ وارانہ فسادات بھڑکانے کیلئے کردار ادا کیا۔

(جاری ہے)

ابھی اور بہت سے انکشافات ہوں گے۔ہم تو شروع دن سے یہ کہتے آرہے ہیں کہ حکمران جسے دوست سمجھتے ہیں وہی اس ملک کا امن برباد کر رہے ہیں۔ دشمن کو صحیح معنوں میں پہچاننے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اﷲ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ حکومت کو انڈیا کو خوش کرنے کی بجائے وطن عزیز پاکستان کی خدمت کرنی چاہیے۔ اگر ایسے واقعات کے بعد بھی کسی کو سمجھ نہیں آتی تو پھر ایسے لوگوں کو کلمہ طیبہ کی بنیاد پر حاصل کئے گئے ملک میں حکومت کا حق حاصل نہیں ہے۔

یہ ملک لاالہ الااﷲ کی بنیاد پر حاصل کیا گیاہے یہاں حکمرانی کرنا بھی اسی کا حق ہے جو خود اس کلمے والی شریعت کا پابند ہو۔ انہوں نے کہاکہ تحفظ حقوق نسواں بل پہلے بہت جلدی میں منظور کیا گیا اور اب علماء کواس میں خلاف شریعت شقوں کی نشاندہی کیلئے دعوت نامے دیے جارہے ہیں ۔قوم سوال کرتی ہے کہ جب بل بنایا جارہا تھا تواس وقت علماء سے کیوں نہیں پوچھا گیا کہ ہم عورت کے حقوق کیلئے اسمبلی میں بل لانا چاہتے ہیں آپ ا س حوالہ سے شریعت کی روشنی میں ہماری رہنمائی کریں؟ اوریہ بتائیں کہ اﷲ اور اس کے رسول ؐ نے عورتوں کیلئے کیا حقوق مقرر کئے ہیں؟۔

حافظ محمد سعید نے کہا یہ بات درست ہے کہ ہمارے معاشرے میں عورتوں پر تشدد اور جائیداد کیلئے قرآن سے شادی جیسی جاہلیت کی رسمیں موجود ہیں۔ اسلام نے انفرادی و اجتماعی امور کی طرح مردوں اور عورتوں کے حقوق واضح طور پر بیان کئے اور مسلمانوں کو مکمل لائحہ عمل دیا ہے کہ کس طرح معاشروں سے ظلم و تشدد ختم اور عدل و انصاف قائم ہو گا۔حکمران بتائیں کہ جب نبی اکرم ؐ نے اسلامی معاشرہ قائم کیاتو کیا اس وقت عورتوں کو حقو ق نہیں ملے؟ کیا صحابہ کرام رضوان اﷲ علیھم اجمعین سے زیادہ بہتر معاشرہ ہم قائم کر سکتے ہیں؟ اور کیا ہم اپنے معاشرے میں اس طرح زیادہ امن قائم کر لیں گے؟ حقیقت میں یہ بہت بڑا دھوکہ اور اﷲ کے دشمنوں کو خوش کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔

یہ باتیں بہت زیادہ تکلیف دہ ہیں۔ انہوں نے کہاکہ وطن عزیز پاکستان کی بنیادوں میں لاکھوں مسلمانوں کا لہو شامل ہے۔گاندھی نے ہندوستان کو تقسیم ہوتا دیکھ کر ہندو مسلم بھائی بھائی کا نعرہ لگایااور کہا کہ ہمارا رہن سہن اور کلچر ایک جیسا ہے اس لئے ہمیں اکٹھے رہنا چاہیے لیکن قائد اعظم محمد علی جناح نے کہاکہ ہم ایک اﷲ کی عبادت کرنے والے ہیں اور ہندو کروڑوں خداؤں کی پوجا کرنے والے ہیں ہمارے بھائی چارے اسلام کی بنیاد پر ہیں۔

مسلمان اور ہندو ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔انہوں نے کہاکہ اس وقت مسلمانوں نے یہ کہہ کر قربانیاں دیں تھیں کہ مسلمان ہونے کے ناطے وہ کسی صورت اغیار کی غلامی قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں لیکن افسوس کہ آج لوگ نظریہ پاکستان کو بھول چکے ہیں اور اسے محض ایک جذباتی نعرہ کے طور پر دیکھتے ہیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نوجوان نسل کی اس سلسلہ میں بھرپور ذہن سازی کی ضرورت ہے۔

جس کلمہ طیبہ کی بنیاد پر یہ ملک بنا اسی لاالہ الااﷲ کی بنیاد پر نبی اکرم ؐ اور صحابہ کرام رضوان اﷲ علیھم اجمعین نے اسلامی معاشرے قائم کئے تھے۔ انہوں نے کہاکہ اسلام نے صرف نماز ، روزہ اور چند اخلاق نہیں سکھائے بلکہ اخوت او ربھائی چارے والا ایک مکمل اسلامی معاشرہ قائم کیا۔ جب نبی اکرم ؐ کو خاتم النبیین بنا کر دنیا میں بھیجا گیا تو وہ معاشرہ ظلم اور غلامیوں کی انتہا کو پہنچا ہوا تھا۔ قتل و غارت گری ، فساد اور جاہلیت کی رسمیں عام تھیں لیکن نبی مکرم ؐ نے اس معاشرے کی اصلاح کی اور سب انسانوں کے حقوق محفوظ ہو گئے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ دنیا میں پیداہونے والے ہر قسم کے بگاڑ، فتنہ و فساد اور قتل و غارت گری کا علاج کلمہ طیبہ پر عمل پیرا ہونے میں ہے۔