شام میں لڑنے والے ایرانی رکن پارلیمنٹ کی تصاویر منظرعام پر آگئیں

ہفتہ 19 مارچ 2016 11:48

شام میں لڑنے والے ایرانی رکن پارلیمنٹ کی تصاویر منظرعام پر آگئیں

تہران (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔19 مارچ۔2016ء) شام میں لڑنے والے ایرانی رکن پارلیمنٹ کی تصاویر منظرعام پرآگئیں ۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق متعدد ایرانی ویب سائٹوں نے مجلس شوری (پارلیمنٹ) کے رکن اور مذہبی شخصیت سید محمد علی بزرگواری کے شام میں ایرانی پاسداران انقلاب کی ملیشیاوٴں کی صفوں میں شامل ہوکر لڑنے سے متعلق رپورٹیں اور تصاویر جاری کی ہیں۔

صبح زاگرس" ویب سائٹ کے مطابق بزرگواری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ "ٹیلی گرام" پر اپنے ایک پیغام میں کہا ہے کہ وہ سیدہ زینب کی خاطر قربانی دینے کے لیے شام آئے۔ویب سائٹ پر مذکورہ رکن پارلیمنٹ کی 11 اور 12 مارچ کو اتاری گئی تصاویر بھی نشر کی گئیں ہیں۔ ان میں ایک تصویر دمشق اور حلب کے درمیان راستے کی ہے اور دوسری حماہ صوبے کے مغرب میں واقع گاوٴں الصحن کی ہے۔

(جاری ہے)

ان تصاویر میں بزرگواری کو پاسداران انقلاب کے مجمع اور شیعہ ملیشیاوٴں کے درمیان دیکھا جاسکتا ہے.. یہ وہ جنگجو ہیں جو شامی اپوزیشن کے گروپوں کے خلاف ان علاقوں میں لڑائی میں مصروف ہیں جہاں داعش کا کوئی وجود نہیں ہے۔تصاویر میں میجر جنرل عوض شہابی فر بھی واضح طور پر نظر آرہے ہیں جو شام میں "فیلق القدس" کے کمانڈر قاسم سلیمانی کے ساتھ تھے۔

عوض شہابی ایرانی پاسداران انقلاب کے زیرانتظام "فیلق فتح" کے سابق کمانڈر تھے۔دوسری جانب ایرانی نیوز ایجنسیوں نے جمعرات کے روز ایران کے شمال مغربی صوبے زنجان میں پاسداران انقلاب کے افسران کی تدفین کی خبر شائع کی ہے۔ ان افسران میں بریگیڈ 36 کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل داوٴد مرادخانی اور رحمان بہرامی شامل ہیں. دونوں افراد بدھ کے روز شام میں اپوزیشن گروپوں کے ساتھ جھڑپوں میں مارے گئے۔

زنجان شہر میں پاسداران انقلاب کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل جہان بخش کرمی نے مذکورہ افسران کی آخری رسومات کی ادائیگی کے موقع پر کہا کہ "بریگیڈیئر جنرل داوٴد مراد خانی اور کمانڈر رحمان بہرامی مشاورت اور شامی حکومتی فورسز کی سپورٹ کی ذمہ داری سرانجام دے رہے تھے"۔گزشتہ چند روز کے دوران ایران نے اپنے کئی رہ نماوٴں کی زبانی دھمکی دی ہے کہ وہ اپنی مزید افواج شام بھیجے گا.. ایسے وقت میں جب کہ روسی افواج کا انخلاء بھی عمل میں آ رہا ہے، شام کے حوالے سے بین الاقوامی مواقف میں حیران کن تبدیلیوں کے بعد بشار الاسد کی حکومت کے جلد سقوط کا اندیشہ ہے۔

متعلقہ عنوان :