سکھر بیراج انجینئرنگ کاشاہکار ‘ 5 ہزار فٹ طویل بیراج 1932 میں مکمل ہوا 7 نہروں سے 10 لاکھ ایکڑ زمین سیر آب کرتا ہے۔خصوصی رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 15 مارچ 2016 13:11

سکھر بیراج انجینئرنگ کاشاہکار ‘ 5 ہزار فٹ طویل بیراج 1932 میں مکمل ہوا ..

سکھر(ا ردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔15مارچ۔2016ء)دریائے سندھ پر واقع سکھر بیراج کسی انجینئرنگ کے شاہکار سے کم نہیں ہے۔ 5 ہزار فٹ طویل بیراج 1932 میں مکمل ہوا اور یہ اپنی ساتھ نہروں سے 10 لاکھ ایکڑ زمین سیر آب کرتا ہے۔سکھر بیراج کی تعمیر سے سندھ میں ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا جس کے بعد بڑی تعداد میں پنجابی، بلوچی اور پٹھان ہجرت کر کے اندرون سندھ میں بسنا شروع ہوئے۔

کراچی کے برعکس، یہاں تمام قومیتوں کے لوگ اس طرح سے گھلے ملے رہتے ہیں کہ ان میں فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ان کا لب و لہجہ بھی ایک ہی ہے اور اندازِ رہن سہن بھی علاقے کا مقامی ہی ہے۔یہاں تک کہ اندرون سندھ میں پٹھانوں کے قبیلے کو سندھی پٹھان کے نام سے جانا جاتا ہے۔دریائے سندھ کے بائیں کنارے لب مہران پارک ہے، جو سکھر کے شہریوں کی پسندیدہ تفریح گاہ ہے۔

(جاری ہے)

عام دنوں میں یہاں فیملیز کو کھانے کے اسٹالوں کے گرد اور کشتی میں دریا کی سیر کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ معصوم شاہ نے 1582 میں ٹاور کی تعمیر کا حکم دیا لیکن دورانِ تعمیر ان کی وفات ہوگئی، اور ان کو ادھورے ٹاور کے سائے میں دفنایا گیا۔ان کے بیٹے نے 1607 میں ٹاور کی تعمیر مکمل کروائی ٹاور 84 فٹ اونچا ہے اور اس میں 84 زینے ہیں۔ آپ ٹاور سے سکھرشہرکا خوبصورت نظارہ کرسکتے ہیں۔

جامع مسجد، سکھر بیراج اور دریا، گھنٹہ گھر، آدم شاہ جی ٹکری (ٹیلا) اور دور دراز تک پھیلا ہوا شہر۔شہر دریا کے بائیں کنارے تک پھیل چکا ہے۔سادھو بیلو دریائے سندھ کے عین وسط میں ایک جزیرے پر واقع اٹھارہویں صدی کا ایک ہندو مندر ہے۔ایک داستان کے مطابق ایک سادھو جن کا نام بابا بن کھنڈی تھا، وہ 1823 میں اس جزیرے پر ہندو مت کی تبلیغ کے لیے آکر بس گئے۔

سادھو نے اس وقت کے حکمران میر سہراب خان کا دل اپنی عقل و دانش سے جیت لیا تھا اس لیے یہ جزیرہ ان کو تحفے کے طور پر دے دیا گیا تھا۔سادھو بیلو کے کشتی میں سفرکے دوران اگر آپ خوش قسمت ہیں، تو گدلے پانی میں اندھی ڈولفن کی جھلک بھی نظر آ سکتی ہے جن کی نسل اب خطرے میں ہے۔سادھو بیلو کے داخلی راستے کے ایک طرف ماربل کی دو ایسی تختیاں تھیں جن پر نقوش و نگار کے ذریعے آنے والوں کو ان کی اعمالوں کے نتائج سے خبردار کیا گیا تھا۔

ان میں سے ایک منظر میں برہنہ گنہگاروں کو ہولناک طریقے سے سخت اذیت دی جا رہی ہے اور دوسری جانب نیک لوگ جنت کے دروازے کے آگے قطار بنائے کھڑے ہیں۔احاطے میں بہت سارے کمرے ہیں جوکہ میلے کے دوران یہاں آنے والے ہزاروں یاتریوں کی رہائش کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔یہاں ایک قدیم لائبریری بھی قائم ہے جہاں ہندﺅ مذہب اور ثقافت سے متعلق نایاب کتابیں دستیاب ہیں-جزیرے پر نیم، ببول، پیپل اور کئی دیگر مقامی اقسام کے درخت ہیں ۔

جزیرے پر کئی چھوٹے مندر بھی ہیں جو ہنومان، گنیش اور دیگر سے منسوب ہیں۔برج کے نیچے آپ زندہ پیر کا مزار بھی دیکھ سکتے ہیں۔اس برج کے ساتھ کئی طرح کی فرضی داستانیں وابستہ ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جن برطانوی انجینیئرز نے یہ برج ڈیزائن کیا تھا وہ اس برج کی مضبوطی کے بارے میں غیر یقینی کا شکار تھے، اس لیے جو پہلی ٹرین اس برج سے گزری وہ سزائے موت کے منتظر قیدیوں سے بھری ہوئی تھی۔

جب ٹرین کامیابی کے ساتھ گزر گئی تو برطانوی سرکار نے ٹرین میں سوار تمام قیدیوں کی سزائیں معاف کردیں۔کچھ مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ وہاں ارد گرد کہیں ایک چابی موجود ہے جس کے ذریعے برج کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔سات کا آستانہ نامی جگہ سیاحوں خصوصا ملک بھر سے جانے والی خواتین زائرین کے لیے خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہا جاتا ہے یہ 7نیک عورتوں کے مزارہیں جو صدیوں پہلے تعمیرکیئے گئے قبریں پیلے رنگ کے پتھروں سے بنی ہوئی ہیں جن پر خوبصورت نقوش کندہ ہیںان میں سے ایک قبر اس دور کے بکھر کے گورنر میر ابوالقاسم کی ہے۔

وہاں ایک خوبصورت محراب بھی موجود ہے، جس کے آگے شاید قدیم وقت میں نظارے کے لیے جگہ ہوا کرتی ہوگی۔ دیوار اور محراب کو نیلے رنگ کی ٹائلوں سے مزین کیا گیا تھا۔مگر سات کے آستانے میں صرف خواتین کو ہی داخل ہونے کی اجازت ہے-