اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ پر تین یونیورسٹیاں اسی سال فعال ہو جائینگی، احسن اقبال

اقتصادی راہداری منصوبہ سے ملک کے تمام علاقے بالخصوص پاکستان، خیبرپختونخوا سب سے زیادہ مستفید ہونگے مغربی روٹ کے گوادر کوئٹہ سیکشن پرکام تیزی سے جاری ہے جو سال کے آخر تک مکمل ہو جائیگا ، وفاقی وزیر منصوبہ بندی کا سیمینار سے خطاب

پیر 14 مارچ 2016 17:09

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔14 مارچ۔2016ء) وفاقی وزیر منصوبہ بندی، ترقی و اصلاحات احسن اقبال نے کہا ہے چین پاکستان اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ پرواقع علاقوں میں تین یونیورسٹیاں اس سال میں فعال ہو جائیں گی۔ یہ یونیورسٹیاں گوادر، ژوب اور فاٹا کے علاقو ں میں قائم کی گئی ہیں۔ان کے ذریعے مغربی روٹ کے واقع علاقوں میں بہترین انسانی وسائل پیداکی جا سکیں گے جس کے ذریعے اقتصادی راہداری کے منصوبوں کو ان علاقوں میں پروان چڑھایا جائے گا۔

انہوں نے خیالات کا اظہار نیشنل لائبریری میں منعقد ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا جس کا موضوع چین پاکستان اقتصادی راہداری ۔مواقع اور چیلنجز تھا۔ احسن اقبال نے کہا اقتصادی راہداری منصوبہ خطے کی تقدیر بدلنے والا منصوبہ ہے جس سے پاکستان کے تمام علاقے با لخصوص بلوچستان اور خیبر پختونخواہ سب سے زیادہ مستفید ہوں گے۔

(جاری ہے)

انہوں نے ایک صوبے کے بارے میں پھیلائی جانے والی خبریں غلط تھیں کہ اقتصادی راہداری کا سب سے زیادہ فائدہ اسے پہنچے گا۔

انہوں نے کہا مغربی روٹ کے گوادر کوئٹہ سیکشن پر کام تیزی سے جاری ہے اور یہ اس سال کے آخر تک مکمل ہو جائیگا ۔ اس حصے پر ابھی سے نئی انسانی آبادیوں کا ظہور بلوچستان کے اس منصوبے سے بے پایاں فوائد سمیٹنے کا مظہر ہے۔احسن اقبال نے کہا توانائی کے شعبے میں اقتصادی راہداری کے سب س زیادہ 11.5ارب ڈالر کے منصوبے سندھ میں لگائے گئے ہیں۔وفاقی وزیر نے اقتصادی راہداری دو تین سال کا منصوبہ نہیں بلکہ یہ پندرہ سال پر محیط ہے جسے 2030میں مکمل ہو گا۔

انہوں نے اس کے ذریعے خطہ اقتصاد ی طو ر پر باہم مربوط ہو جائے گا اور اس سلسلے میں پڑوسی ملک ہندوستان میں بھی احساس پید ا ہو گیا ہے کہ اقتصادی راہداری چین کے ساتھ تجارت کر سب سے مختصر اور سستا روٹ ہو گا۔انہوں نے کہا اقتصادی راہداری چین اور پاکستان کے وژن کا ملاپ ہے ۔انہوں نے زور دیا کہ اب ذہن سازی کی ضرورت ہے جس کے لئے حکومت انسانی وسائل کی ترقی کے لئے کام کر رہی ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ آج کا دور اقتصادی نظریات کا دور ہے جس میں دنیا کے ممالک اپنی مصنوعات میں مسابقتی برتری کے بل بوتے پر مقابلہ کر رہے ہیں۔ہمیں ایک اقتصادی قوت بننا ہے جو دولت اور وسائل کی شراکتی پالیسی کے ذریعے ممکن ہو سکتا ہے ۔