پنجاب ہائر ایجوکیشن وزارت میں 5ارب 38کروڑ کرپشن کی تفصیلات سامنے آگئیں

افسران نے 3ارب 78کروڑ تعلیم کے فروغ پر خرچ کرنے کی بجائے بینکوں میں سرمایہ کاری بانڈز خرید لئے

اتوار 13 مارچ 2016 17:46

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔13 مارچ۔2016ء) پنجاب کے ہائر ایجوکیشن کمیشن میں اعلی تعلیم کی فراہمی کے نام پر وزارت کے اعلی افسران اور تعلیمی اداروں کے سربراہوں نے پانچ ارب 38 کروڑ روپے کی بدعنوانیاں کی ہیں اس کرپشن کی وجہ سے صوبے میں اعلی تعلیم کا خواب ادھورا رہ گیا ہے ا س کرپشن کا انکشاف آڈٹ حکام نے اپنی تازہ رپورٹ کے اجراء میں کیا ہے یہ رپورٹ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو پیش کر دی گئی ہے ججس میں ہائر ایجوکیشن پنجاب میں اربوں روپے کی کرپشن کی نشاندہی کی گئی ہے ۔

رپورٹ آن لائن نے بھی حاصل کر لی ہے جس کے مطابق محکمہ تعلیم پنجاب کے افسران اور وزراء اور یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور کالجوں کے پرنسپل نے کرپشن کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں آڈٹ حکام نے اس کرپشن کی وجہ صوبے میں مالی ڈسلپن کی کمی اور احتساب کے عمل نہ ہونا قرار دیا ہے وزیر تعلیم پنجاب رانا مشہود خان پہلے ہی کرپشن کی وجہ سے نیب کی تحقیقات کا سامنا کر رہے ہیں رپورٹ میں اعلی تعلیم کے نام پر ہولناک مالی بدعنوانیوں کے ثبوت آئے ہیں جیسا کہ فاطمہ وومن یونیورسٹی راولپنڈی ، لارنس کالج مری و دیگر اداروں کے سربراہوں نے تعلیم پر خرچ کرنے کی بجائے 3 ارب 78 کروڑ روپے کے فنڈز مختلف بنکوں میں سرمایہ کاری کی ہوئی ہے اور اس بھاری فنڈز اعلی تعلیم کے لئے مختص کئے گئے تھے اس سرمایہ کاری سے متعلقہ لوگ ہی مالی فوائد حاصل کر کے اپنی ذاتی تجوریاں بھر رہے ہیں رپورٹ کے مطابق ہائر ایجوکیشن کمیشن پنجاب کے افسران نے 36 کروڑ روپے کے اخراجات کر کے ریکارڈ ہی ضائع کر دیا اور متعلقہ اخراجات کا آڈٹ کرانے کے لئے ریکارڈ فراہم ہی نہیں کیا ہے اعلی تعلیم کے نام پر مختلف کالجوں میں تعمیرات اور عمارتوں کی مرمت کے نام پر 270 ملین روپے ضائع کئے گئے ہیں بعض کالجوں نے 212 ملین روپے کے فنڈز بنک آف پنجاب میں ڈیپازٹ کرانے کی بجائے ذاتی اکاؤنٹس میں جمع کرائے ہوئے ہیں ۔

(جاری ہے)

تاہم ان اداروں کے سربراہوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی پنجاب کے تعلیمی بورڈ کے نتائج کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے ملین روپے کے ٹھیکے من پسند کمیٹیوں کو دیئے گئے ہیں جس میں قواعد و ضوابط کو نظرانداز کیا گیا ہے ۔ وزارت تعلیم کے افسران نے اخبارات میں اشتہارات دیئے بغیر افسران بھرتی کئے ہیں جن کو اضافی 36 ملین روپے دیئے گئے ہیں جبکہ وزیر اعلی کی قائمہ کمیٹی سے اجازت لئے بغیر 27 ملین کی خریداری کی گئی ہے ۔

جبکہ کیش ایوارڈز کے نام پر 20 ملین کی ہیراپھیری کی گئی ہے وزارت کے ایسے افسران کو بھی ریٹائرمنٹ کے بعد بھرتی کیا جنہیں 16ملین کی رقوم جاری کر دی گئی ہیں صوبے میں ہونہار طلبہ کو سکالر شپ کے نام پر افسران نے 27 ملین کی کرپشن کی ہے اور افسران نے غیر قانونی طور پر ایڈوائس 100 ملین دیئے گئے ۔ افسران نے وائس چانسلر کی اجازت کے بغیر الاؤنس کے نام پر 202 ملین ادا کئے گئے ہیں جبکہ طلبہ سے وصول کی گئی فیسیں 36 ملین کی فیس افسران نے آپس میں تقسیم کر لی ہیں افسران نے ٹھیکیداروں کو 21 ملین اضافی ادا کئے ہیں ان ٹھیکیداروں سے 15 ملین وصول ہی نہیں کئے گئے افسران کے انکم ٹیکس میں 10 ملین کا فراڈ کیا ہے افسران نے بیرونی ملکوں میں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ پوری تنخواہ بھی خزانہ سے لیتے رہے اس 7 ملین کا فراڈ سامنے آیا ہے جبکہ جی ایس ٹی کی مد میں 4 ملین کی ہیراپھیری کی گئی ہے رپورٹ کے مطابق ڈگری کالج ملتان اور اصغر مال راولپنڈی نے 70 ملین روپے واپس خزانہ میں جمع ہی نہیں کرائے جبکہ سائنس کالج ملتان میں 148 ملین کی ہیرا پھیری ہوئی ہے ۔

رپورٹ کے مطابق ایجوکیشن کالج فیصل آباد نے سائنس اوزار کے خریدنے کجے نام پر 29 لاکھ کی کرپشن کی گئی ہے ۔ لاہور کالج وومن یونیورسٹی نے اشتہارات کی مد میں 4 ملین کے غیر ضروری اخراجات کئے ہیں ایجوکیشن کالج فیصل آباد انتظامیہ نے ریونیو گرانٹ سے 40 ملین کی خریداری کر ڈالی ہے وومن اسلام آباد کالج لاہور کینٹ کے انتظامیہ نے 31 لاکھ اپنی اکاؤنٹس میں غیر قانونی طور پر منتقل کئے ہیں ساہیوال تعلیمی بورڈ میں 63 لاکھ کی کرپشن کی نشاندہی ہوئی ہے انجینئرنگ یونیورسٹی ٹیکسلا میں مجموعی طور پر 900 ملین روپے کی مالی بدعنوانیوں کی تفصیلات سامنے آئی ہیں آڈٹ حکام نے آن لائن کو بتایا کہ پنجاب کی وزارت تعلیم میں مالی ڈسپلن نہ ہونے کے مساوی ہے افسران من مانے قومی فنڈز کا غیر قانونی ضروری استعمال کرتے ہیں اور آج تک کسی ایک افسر کو کرپشن مالی بدعنوانی پر انکوائری کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑا ۔

وزیر اعلی پنجاب گزشتہ دو سال سے پنجاب میں حکومت کر رہے ہیں لیکن انہوں نے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود کسی کرپٹ کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی ۔ آن لائن نے ہائر ایجوکیشن کے سیکرٹری سے بار بار رابطہ کر کے موقف جاننے کی کوشش کی لیکن متعلقہ سیکرٹری بات کرنے پر راضی نہ ہو سکے ۔

متعلقہ عنوان :