بی جے پی نے بنگلہ دیشی مسلمان تارکین وطن کو ووٹ کے حق سے محروم کرنے کی ٹھان لی

ریاستی حکومت بنانے کے بعد غیرقانونی طریقوں سے آنے والے مہاجرین کو بیدخل کر دیا جائے گا، راشٹریہ سوائم سیوک سَنگھ

ہفتہ 12 مارچ 2016 12:19

نئی دہلی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔12 مارچ۔2016ء) بھارتیہ جنتا پارٹی نے آسام میں لاکھوں مسلم تارکین وطن کو ووٹ کے حق سے محروم کرنے کی ٹھان لی جبکہ بی جے پی کا کہنا ہے کہ ریاستی حکومت بنانے کے بعد غیرقانونی طریقوں سے آنے والے مہاجرین کو بیدخل کر دیا جائے گا۔بھارتی ریاست آسام میں اگلے مہینے ریاستی اسمبلی کے الیکشن ہوں گے۔ سیاسی عدم استحکام کی شکار اس ریاست میں حکومت سازی کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی کی قوم پسند ہندو جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ انتخابات میں کامیابی کی صورت میں بنگلہ دیش سے ترک وطن کر کے آنے والے مسلم مہاجرین کو ووٹ کے حق سے محروم کر دیا جائے گا اور ان کا مہاجرین کا اسٹیٹس بحال کر دیا جائے گا۔

اس سیاسی پارٹی نے انتخابی مہم میں غیرقانونی مہاجرین کو یقینی طور پر بیدخل کرنے کی بھی دھمکی دی ہے۔

(جاری ہے)

راشٹریہ سوائم سیوک سَنگھ کا کہنا ہے کہ کامیابی کی صورت میں 1951 سے 1971 کے درمیان آسام میں آ کر آباد ہونے والے بنگلہ دیشی ووٹرز کو حقِ رائے دہی سے محروم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔آسام کی ریاستی اسمبلی کے لیے رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد بیس ملین بتائی جاتی ہے اور ان میں سے دس فیصد سن 1950 کے بعد سابقہ مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش سے ہجرت کر کے بھارتی سرزمین پر آباد ہونے والے ان تارکین وطن کے ووٹ ہیں، جن میں بہت بڑی اکثریت مسلمانوں کی تھی۔

یہ سابق تارکین وطن آسام میں آباد ہو کر بھارتی شہریت بھی حاصل کر چکے ہیں۔ آسام کے ایک مسلمان رہائشی اسماعیل حسین نے غیر ملکی خبررساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ حیرانی کی بات ہے کہ جائز اور قانونی بھارتی شہریوں کو بنگلہ دیشی قرار دیا جا رہا ہے۔ حسین کے مطابق ریاست کے مسلمانوں کو بھارتی دستور پر یقین ہے اور وہ جانتے ہیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی جو چاہتی ہے، ویسا کر نہیں سکتی۔

آسام کی بڑی مسلم سیاسی جماعت بھی انتخابی ریلی کے انتظامات کیے ہوئے ہیں۔بھارتی ریاست آسام کی مجموعی آبادی میں مسلمانوں کا تناسب چونتیس فیصد ہے۔ بھارت کی تمام ریاستوں میں آسام وہ دوسری ریاست ہے جہاں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بستی ہے۔ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں تھنک ٹینک انسٹیٹیوٹ برائے کونفلِکٹ مینیجمنٹ سے منسلک تجزیہ کار اجے ساہنی کا کہنا ہے کہ الیکشن سے قبل ووٹروں کو تحریک دینے کا یہ ایک عمل ہے اور کوئی ریاست ایسی نہیں جو اس انداز میں عمل کر سکے۔

ناقدین کا خیال ہے کہ اگر بھارتیہ جنتا پارٹی اس بنیاد پر آسام میں کامیابی حاصل کر لیتی ہے تو وہ مغربی بنگال میں اپنی ہم خیال راشٹریہ سوائم سیوک سَنگھ کے ساتھ ایک ایسی ہی تحریک کو شروع کر سکتی ہے۔ راشٹریہ سوائم سیوک سَنگھ نے آسام میں بی جے پی کی انتخابی مہم کی ذمہ داری سنبھال رکھی ہے۔یہ امر اہم ہے کہ گزشتہ موسمِ خزاں میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو ریاست بہار کے انتخابات میں شکست کا سامنا رہا تھا۔

اس ریاست کی اسمبلی کے انتخابات میں بھی اس قوم پرست جماعت نے قدرے متنازعہ موقف اپنایا تھا کہ بھارت ہندو قوم کا ملک ہے اور اس تناظر میں بھارت میں اس تصور کے مخالفین کو محدود کرنا ضروری ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ریاست بہار میں بھی بی جے پی نے مسلم اقلیت کو کنارے لگانے کی کوشش کی تھی۔ بھارت دستور کے تحت ایک سیکولر ملک ہے اور کل 1.3 ارب کی آبادی میں سے اسّی فیصد ہندو ہیں۔ مسلمان کل آبادی کا چودہ فیصد ہیں اور بقیہ چھ فیصد میں مسیحی، سکھ، بدھ مت کے پیروکا اور دوسرے مذاہب کے ماننے والے شامل ہیں۔

متعلقہ عنوان :