وزارت پٹرولیم میں 40ارب کا نیا سکینڈل

سیکرٹری پٹرولیم اور ڈائریکٹر جنرل آئل نے دو آئل کمپنیوں کو تیل چوری کرنے کی اجازت دے رکھی ہے

جمعہ 11 مارچ 2016 17:46

وزارت پٹرولیم میں 40ارب کا نیا سکینڈل

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔11 مارچ۔2016ء ) وزارت پٹرولیم میں 40ارب روپے کی کرپشن کا نیا سکینڈل سامنے آگیا ہے اس سکینڈل میں سیکرٹری پٹرولیم اور ڈائریکٹر جنرل آئل وزارت پٹرولیم و دیگر اعلیٰ افسران ملوث قرار پائے گئے ہیں وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کرپشن سکینڈل میں نہ شامل ہیں اور انہیں کرپشن کوئی علم نہیں ہے ۔

(جاری ہے)

آن لائن کو ملنے والی سرکاری دستاویزات میں اس بھاری سکینڈل کے سامنے آنے کے حوالے سے تفصیلات موصول ہوئی ہیں ریکارڈ کے مطابق دو بین الاقوامی آئل اینڈ گیس کمپنیاں او ایم وی اور ایم او ایل کو تیل و گیس کے ذخائر دریافت کرنے کیلئے لائسنس دیئے ہیں ان کمپنیوں کو ثاقب اینڈ مامی خیل اور مرمزئی کے علاقے میں یہ لائسنس دیئے گئے تھے ان کمپنیوں کو یہ کیپشن لائسنس مشرف دور حکومت میں الاٹ ہوئے تھے تاہم چند سال کی تاخیر سے ان کمپنیوں نے علاقے میں قدرتی ذخائر کی درفات کیلئے ڈرلنگ شروع کی اور سرمایہ کاری کا آغاز کیا قانون کے مطابق بین الاقوامی کمپنیوں کو مقررہ وقت کے اندر ہی ذخائر کی دریافت کی ذمہ داری پورا کرنا ہوتی ہے تاہم کچھ عرصہ بعد متعلقہ آئل فیلڈ سے پیداوار کا آغاز ہوگیا تھا دستاویزات کے مطابق ان کمپنیوں کے دعوے کے مطابق 2009ء میں خام آئل کی پیداوار شروع ہوئی تھی ان دونوں فیلڈ پر حکومت پاکستان کے ایکسپلوریشن اینڈ پروڈکشن رولز 1986ء کے تحت ڈی جی آئل حکومت پاکستان کو ریگولیٹ کرنا تھا 1986 کے قوانین کے مطابق کمپنیوں کو (EWT) Extended well testing facilty کی سہولیات نہیں دی گئیں تھیں اور قانون کے مطابق کمپنیاں اس سہولت کا دعویٰ بھی نہیں کرسکتیں پیپلز پارٹی حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی 2009ء میں نئی پٹرولیم پالیسی جاری کی جس کے تحت کمپنیوں کو ای ڈبلیو ٹی کی سہولت فراہم کی ان کمپنیوں نے مسلسل پانچ سال تک ان فیلڈز سے پیداوار حاصل کی تاہم اپنی پیداوار بارے معلومات اور ڈیٹا وزارت پٹرولیم کو فراہم ہی نہیں کیا ان پانچ سالوں میں اربو ں روپے کا خا م تیل نکال کر آئل ریفائنری کو بیچ دیا گیا قانون کے مطابق آئل کمپنیوں کی پیداوار کو ریگولیٹ کرنا اور ڈیٹا اکٹھا کرنے کی ذمہ داری ڈائریکٹر جنرل آئل وزارت پٹرولیم کی بنتی ہے تاہم متعلقہ حکام نے مجرمانہ خاموشی اختیار کئے رکھی اور کمپنیوں سے مل کر قومی خزانہ کو چالیس ارب روپے سے زائد کا مالی نقصان پہنچایا ہے دستاویزات کے مطابق ان کمپنیوں نے تجرباتی پیداوار کا بہانہ بنا کر اربوں روپے کی پیداوار حاصل کی اور ایک پائی بھی نہ تو خزانہ میں جمع کرائی تاہم وزارت پٹرولیم کے افسران نے مبینہ طور پر ان آئل کمپنیوں سے ملی بھگت کرکے اربوں روپے کی کرپشن کرنے کے مرتکب ٹھہراے گئے ہیں سرکاری دستاویزات کے مطابق ای ڈبلیو ٹی کا لائسنس ان کمپنیو ں کوڈائریکٹر جنرل آئل نے فراہم کیا تھا جس کے تحت ان کمپنیوں نے خام تیل ریفائنری کو بیچ دیا تاہم ان کمپنیوں کو ای ڈبلیو ٹی کی سہولت درکار ہی نہیں تھی اور اس وقت کے کرپٹ حکمرانوں کے کرپٹ افسران نے نئے قانون کو پانچ سال پرانے معاہدوں پر لاگو کرکے قومی خزانہ کو چالیس ارب روپے کا نقصان پہنچایا وزارت خزانہ کو جب اس کرپشن کا علم ہوا تو انہوں نے ایک خط کے ذریعے ای ڈبلیو ٹی کے تحت فروخت کی گئی پٹرول اور گیس سے ہونے والی آمدن جو کہ چالیس ارب روپے سے زائد بنتی ہے کو قومی خزانہ میں جمع کرانے کی ہدایت کی ہے تاہم ابھی تک اس ہدایتپر عمل کیا ہے اور نہ کسی افسر کو کرپشن سیکرٹری پٹرولیم پر تادیبی کارروائی کی ہے اور 2009ء سے لیکر اب تک خام آئل اور گیس کی فروخت بارے مکمل ڈیٹا طلب کرلیا ہے آن لائن نے وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی سے اس سکینڈل پر ہونے والی پیش رفت بارے پوچھا تو انہوں نے نہ تو اس کرپشن سکنیڈل بارے اپ ڈیٹ ہیں اور سیکرٹری پٹرولیم نے انہیں آگاہ رکھا ہوا ہے جب ان سے پوچھا گیا تو اس سکینڈل کی تحقیقات کہاں تک پہنچی ہیں تو انہوں نے خاموشی اختیار کرلی آن لائن نے ڈائریکٹر جنرل آئل سے بھی رابطہ کیا تو انہوں نے اجلاس میں مسلسل شریک رہنے کا بہانہ بنا کر وضاحت کرنے سے انکار کیا ہے آن لائن کو وزارت پٹرلیم ذرائع نے بتایا ہے کہ اس سکینڈل پر پردہ ڈالنے کی کوشش جاری ہیں اور افسران اپنے بھائیوں کو بچانے میں مصروف ہیں ایک سال سے ابھی تک سیکرٹری پٹرولیم تحقیقات شروع ہی نہیں کرسکے سیکرٹری پٹرولیم ارشد مرزا نے بھی وضاحت کرنے سے انکار کیا ہے