ادارے میں ٹوٹل 38جہاز ہیں ‘ 14704 مستقل اور 3500 عارضی ملازمین ہیں ‘ پی آئی اے 330بلین کا مقروض ہے ‘پی آئی اے حکام

جمعرات 10 مارچ 2016 16:47

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔10 مارچ۔2016ء) پبلک اکاؤنٹس کو پی آئی اے نے بتایا ہے کہ ادارے میں ٹوٹل 38جہاز ہیں ‘ 14704 مستقل اور 3500 عارضی ملازمین ہیں ‘ پی آئی اے 330بلین کا مقروض ہے ‘5 سالوں 50 سے 21 جہازوں پر آگئے ہیں ‘ سارا جھگڑا پیسے کا ہے جبکہ کمیٹی نے پی آئی اے کی بریفنگ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے تمام اثاثوں کی تفصیلات طلب کرلی ہیں ‘ چیئر مین کمیٹی سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ 330 ارب قرضہ ادا کیا جائے تو تو پی آئی اے 50بلین منافع کما سکتی ہے ‘حج عمرہ پی آئی اے کیلئے سونے کی چڑیا ہے سعودی ائیرلائن بھی ان کو بزنس دیتی ہے ‘یورب میں پی آئی اے بند پڑی ہے لوگ لاشیں بھی نہیں لاسکتے ‘40ارب سالانہ سود دیا جاتا ہے ‘2009سے ابتک پی آئی اے کے کراٰیوں کا آڈٹ کروایا جائے ۔

(جاری ہے)

جمعرات کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کااجلاس اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کی سربراہی میں ہوا اجلاس میں پی آئی اے حکام نے صورتحال پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ پی آئی اے میں 57جنرل ‘ منیجرز اور 19ڈائریکٹر ہیں جس پر عذرا افضل پیچوہو نے کہاکہ اس طرح کے دعوے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں کمیٹی نے کہاکہ سی ای او غیر ملکی کیوں لگایا گیا جس پر پی آئی اے حکام نے بتایا کہ ٹوٹل 38 جہاز ہیں ایک کے ساتھ 380 ملازمین منسلک ہیں ‘ گذشتہ پانچ سالوں میں ساڑھے پانچ ہزار افراد کم ہوئے ہیں ‘تحریک انصاف کے شفقت محمود نے استفسار کیا کہ 14ہزار سے زائد ملازمین کے ہوتے ہوئے ہزاروں عارضی ملازمین کیوں رکھے گئے۔

پی آئی اے حکام نے بتایا کہ 14704 مستقل اور 3500 عارضی ملازمین ہیں اجلاس کے دور ان پی آئی اے کی بریفنگ پر کمیٹی نے سخت برہمی کا اظہار کیا اور کہاکہ صرف ایک ملازم کو چالیس لاکھ پر رکھا ہوا ہے ۔ پی آئی اے حکام نے بتایا کہ پی آئی اے کو پرائیوٹائز کر دیں اور انوسٹر لیکر آئیں توادارہ منافع میں آسکتا ہے حکام نے بتایا کہ پی آئی اے 330بلین کا مقروض ہے ‘5 سالوں 50 سے 21 جہازوں پر آگئے ہیں اور سارا جھگڑا پیسے کا ہے ۔

کمیٹی کے سربراہ سید خورشید شاہ نے کہاکہ 330 ارب قرضہ ادا کیا جائے تو تو پی آئی اے 50بلین منافع کما سکتی ہے انہوں نے کہاکہ حج عمرہ پی آئی اے کیلئے سونے کی چڑیا ہے سعودی ائیرلائن بھی ان کو بزنس دیتی ہے ‘یورب میں پی آئی اے بند پڑی ہے لوگ لاشیں بھی نہیں لاسکتے ‘40ارب سالانہ سود دیا جاتا ہے ۔اس موقع پر محمود خان اچکزئی نے کہاکہ پی آئی اے کو کتنا پیسہ دیں تو پرافٹ میں لایا جاسکتا ہے ۔

اجلاس کے دور ان شیخ رشید احمد نے کہاکہ وزیراعظم کے مشیر ہوابازی شجاعت عظیم کے 124 ائیرلائن میں شیئر ہیں ‘شجاعت عظیم نے تمام شیئر اپنی فیملے کے نام منتقل کردیئے ہیں ‘پی آئی اے کی لیڈرشپ ہی کرپٹ ہے ۔پی آئی اے حکام نے بتایاکہ اس سال تین سے چار320 جہاز ڈرائی لیز پر لیے جا رہے ہیں جس پر شیخ روحیل اصغر نے کہاکہ پی آئی اے کا عملہ مسافروں سے درست رویہ نہیں رکھتے انہوں نے کہاکہ پانی کا گلاس دوبارہ مانگ لیا جائے تو رویہ دیکھنے والا ہوتا ہے جہازوں میں کمبل تک نہیں ہیں ۔

پی آئی اے حکام نے جواب دیا کہ جہازوں میں کمبلوں ور تکیوں کی قلت پر قابو پالیا گیا ہے ‘ پی آئی اے کے قرضوں کے حوالے سے سٹیٹجک پلان بنایا تھا لیکن بورڈ نے منظوری نہیں دی ‘پی آئی اے کو قرض دینے والوں پی آئی اے کے حصص دینے کی بھی تجویز زیرغور ہے۔ حکام پی آئی اے نے بتایا کہ 2014 میں پی آئی اے کے اثاثوں کی مالیت 8 ارب سے زائد لگائی گئی ہے ‘پی آئی اے کی جائیداد کی کل مالیت 8بلین سے زائد ہے ‘بلڈنگ کی مالیت ایک ارب ستاسی کروڑ ہے ۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے پی آئی اے حکام کے اعداوشمار پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ یہ بک ویلیو بتا رہے ہیں یا اصل ویلیو عاشق گوپانگ۔ سی ایف او نے بتایا کہ پی آئی اے کے اثاثوں کی مالیت واجب الادا قرضوں سے 179 ارب روپے کم ہے تاہم پی اے سی نے پی آئی اے کے اثاثوں کی تفصیلات طلب کر لیں او رکہاکہ بتایا جائے کہ پی آئی اے کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے تقرر کا طریقہ کار کیا ہے کمیٹی نے کہاکہ فوڈ کیٹرنگ کا مجموعہ اخراجات میں کتنا حصہ ہے شیخ روحیل اصغر نے کہاکہ پانی کا گلاس دوبارہ مانگ لیا جائے تو عملے کا رویہ دیکھنے والا ہوتا ہے ۔

انہوں نے کہاکہ مسافروں کے ساتھ رویہ درست کرنے کی ضرورت ہے ۔ خورشید شاہ نے کہاکہ دوسری آئیر لائینزآئیرش کافی بھی دیتی ہیں جو پینے سے انسان آسمان تک پہنچ جاتا ہے ‘ دنیا کی آئیر لائینوں میں وائین، وسکی، شیمپین بھی ملتی ہے ‘ پی آئی اے آلو کی بھجیا ‘ دال، اور چاول پانی کے گلاس کے ساتھ دیتا ہے۔ خورشید نے ہدایت کی کہ اگلے اجلاس میں پی آئی اے کے بورڈ آف گورنرز اور اثاثوں کی مکمل رپورٹ پیش کی جائے کمیٹی نے پی اے سی نے 2009سے ابتک پی آئی اے کے کراٰیوں کا آڈٹ کروانے کی ہدایت کردی اور کہا کہ 2009سے ابتک کتنے کا ٹکٹ تھا ‘2009سے ابتک 30 فیصد اضافہ ہوا ہے ‘اگر ٹکٹ کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے تو پھر منافع کیوں نہیں ہورہا ‘ لندن کا ٹکٹ 2010 میں کتنا تھا اس پر پی آئی اے حکام جواب نہ دے سکے جس کے بعد پی اے سی تمام تفصیلات ایک ماہ میں طلب کرلیں۔

کمیٹی کے چیئر مین خورشید شاہ نے پی آئی اے حکام پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ 2009 سے 2012 میں ادارہ کیسے منافع میں تھا اور اب کیوں نہیں ہے ‘بتایا جائے بڑے جہازوں کو چھوڑ کر چھوٹے جہاز کیوں خریدے گئے ‘خورشید شاہ نے ہدایت کی کہ آڈٹ حکام روپورٹ مرتب کریں کہ چھ سالوں میں پی آئی اے کا نقصان کیوں ہوا ٹکٹ کتنے مہنگے ہوئے ‘ یہ رپورٹ ایک ماہ میں دی جائے انہوں نے کہاکہ پی آئی اے نے چھ سالوں میں م اپنے کرائیوں میں 30 فیصد اضافہ کیا میں نے سکھر کا ٹکٹ 21 ہزار میں بھی خریدا ۔

متعلقہ عنوان :