پاکستان سٹیل مل کی نجکاری نہ ہو نے کی وجہ سے200ارب سے زائد کا نقصان ہو ا ہے ، سٹیل مل کی نجکاری کا فیصلہ جتنی جلدی کیا جائیگا اتنا ملک اور ملازمین کو فائدہ ہو گا،ریٹائرملازمین اور بیواؤں کو پنشن و دیگر فنڈز کی فراہمی نہیں کی جا رہی ،18.5ارب روپے کا بیل آؤٹ پیکج خام میٹریل کی خریداری ،یوٹیلٹی بلز اور تنخواہوں کی ادائیگی میں صرف کیا گیا سینیٹ قائمہ کمیٹی صنعت وپیدوار کو وزیر مملکت نجکاری محمد زبیراور دیگر کی بریفنگ

پیر 7 مارچ 2016 20:48

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔07 مارچ۔2016ء) سینیٹ قائمہ کمیٹی صنعت وپیدوار کو آگاہ کیا گیاہے کہ پاکستان سٹیل مل کی نجکاری نہ ہو نے کی وجہ سے200ارب سے زائد کا نقصان ہو ا ہے ، سٹیل مل کی نجکاری کا فیصلہ جتنی جلدی کیا جائیگا اتنا ملک اور ملازمین کو فائدہ ہو گا،ریٹائرملازمین اور بیواؤں کو پنشن و دیگر فنڈز کی فراہمی نہیں کی جا رہی ، 18.5ارب روپے کا بیل آؤٹ پیکج خام میٹریل کی خریداری ،یوٹیلٹی بلز اور تنخواہوں کی ادائیگی میں صرف کیا گیا۔

پیر کو کمیٹی کا اجلاس چیئر مین سینیٹر ہدایت اﷲ کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا جس میں سینیٹرز میاں محمد عتیق شیخ ، تاج حیدر کے علاوہ وزیر نجکاری محمد زبیر ،سیکرٹری وزارت صنعت و پیداوار،سیکرٹری نجکاری ،جوائنٹ سیکرٹری خزانہ،چیئرمین پاکستان سٹیل مل کے علاوہ دوسرے محکمہ جات کے اعلیٰ افسران نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں وزارت خزانہ اور نجکاری کمیشن سے پاکستان سٹیل ملز اور پاکستان مشین ٹول فیکٹری کی نجکاری کے حوالے سے معاملات کا جائزہ لینے کے علاوہ پاکستان سٹیل ملز انونٹری کی فروخت سے حاصل ہونے والے3.3ارب روپے کے استعمال بیل آؤٹ پیکج اور گریجویٹی فنڈزاور جی پی فنڈز کے معاملات اور گلشن حدید میں رہائشی اور کمرشل پلاٹوں پر غیر قانونی تعمیرات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

قائمہ کمیٹی کو بتایاگیا کہ پاکستان سٹیل ملز 1984میں قائم کی گئی اور سالانہ پیداوار1.1ملین ٹن ہے اور یہ تین ملین ٹن تک پیداوار کو بڑھایا جا سکتا ہے یہ18600ایکڑ پر مشتمل ہے ۔وزیر مملکت نجکاری محمد زبیر نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان سٹیل مل کی نجکاری کا فیصلہ جتنا جلدہو گا اتنا ہی ملک وقوم او رملازمین کو فائدہ ہوگا اور ادارہ مزید خسارے سے بچ جائیگا۔

انہوں نے بتایا 18.5ارب روپے کا بیل آؤٹ پیکج را میٹریل کی خریداری ،یوٹیلٹی بلز اور تنخواہوں کی ادائیگی میں صرف کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ مقصد یہی تھا کہ نجکاری کے پروسیس تک اس کی حالت بہتر کی جائے۔ جون 2015میں سوئی سدرن گیس نے گیس کی سپلائی بند کر دی وزارت خزانہ کو آگاہ کر دیا گیا تھا کہ مل بند ہونے سے مسائل بڑھیں گے۔گیس کی بحالی کیلئے ا قدامات بھی اٹھائے گئے مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے پہلے پاکستان سٹیل مل کی نجکاری کو روک دیا تھا اب کوئی بھی دلچسپی نہیں لے رہا۔اکتوبر2015میں شفاف ماریکٹنگ بھی کروائی ہے کیبنٹ کمیٹی میں معاملہ لے گئے تو اس نے سندھ حکومت کو یہ آفر کر دی ہے اور سندھ حکومت نے گیس کنکشن انسینٹو پیکج اور و اجبات کی ادائیگی کے حوالے سے پوچھاہے ۔یہ معاملہ وزارت خزانہ کے پاس ہے جو وفاقی حکومت کے موقف سے آگاہ کریگی۔

جس پر سینیٹر تاج حیدر نے کہ کہ ملک میں سٹیل کی پیداوار کو تباہ کیا جا رہاہے ۔امپورٹر لابی معاملات نہیں ہونے دے رہی معاملات کو بہتر کیا جائے ۔حکومت ٹیرف پروڈکشن دینے کوتیار نہیں۔بنکرز ملک میں بیٹھ چکے ہیں اور ای سی سی گیس سرچارجز بارے فیصلہ کرے۔اور پیدوار کو 3ملین ٹن تک بڑھایا جائے۔سینیٹر میاں محمد عتیق شیخ نے کہا کہ یہ تاثر پیدا ہو رہاہے کہ حکومت یہ معاملہ فائنل نہیں کر رہی ۔

ایک وقت مقرر کیا جائے مزدوروں کے پاس کھانے کو کچھ نہیں رہا ۔انہوں نے کہا کہ ذمہ دا روں کا تعین کیا جائے اور سب کو ملکر مثبت حل نکالنا چاہئے کہ اس کو کس طرح چلانا چاہئے۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ایک مضبوط کمیٹی بنا کر ان تمام معاملات کا جائزہ لیا جائے۔سیکرٹری صنعت و پیداوار نے تجویز دی کہ یہ کیس ایف آئی اے کے حوالے کیا جانا چاہئے کہ کس کی کوتاہی تھی ۔

چیئرمین سٹیل ملز نے کہا کہ 2008میں26ارب کا نقصان ہوا تھا ۔ حکومت سے 20ارب روپے مانگے تھے مگر 10ارب روپے فراہم کئے گئے تب سے یہ تنزلی کا آغاز ہوا۔ہم نے سمری بھیجی ہے کہ ہمارے مسائل تفصیل سے سنے جائیں جس پر سینیٹر میاں محمد عتیق شیخ نے کہا کہ کمیٹی سفارش کرے کہ وزیر اعظم اس معاملے کو خود دیکھیں انتہائی اہم ا یشوز ہیں ورنہ معاملات روز بروز بگڑتے جائینگے ۔

سینیٹر تاج حیدر نے گیس بحالی کی تجویز دی ۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان مشین ٹول فیکٹری کے معاملات کا بھی تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔قائمہ کمیٹی کو بتا یا گیا کہ یہ ادارہ2002-3سے خسارے میں جا رہا ہے۔2013میں کیبنٹ کمیٹی میں اس کی نجکاری کا فیصلہ ہوا۔وزارت دفاعی پیداوار نے اس کی مخالفت کی ۔پاکستان واہ فیکٹری کے ساتھ بات کی ہے انہوں نے سابقہ واجبات کی ادائیگی وفاقی حکومت سے اداکرنے کو کہا ہے اور وزارت صنعت وپیداوار نے کہا ہے کہ اس سے بہتر ہے کہ اسکو حکومت خود ہی چلائے۔

اسکے ملازمین کی تنخواہوں او ردیگر مراعات کی ادائیگی بھی پاکستان سٹیل ملک کے ملازمین کی طرح ہے۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ قائمہ کمیٹی نے بھی اس کی نجکاری نہ کرنے کی سفارش کی تھی۔سینیٹرعتیق شیخ نے مالی سپورٹ اور بنکوں کے معاملات میں مدد کرنے کی سفارش کی۔3.3ارب کے استعمال کے حوالے سے قائمہ کمیٹی نے سالانہ آڈٹ رپورٹ کے آنے تک معاملہ ملتوی کر دیا،قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں گلشن حدید میں غیر قانونی تعمیرات کے حوالے سے پاکستان سٹیل ملز کی طرفٖ سے اٹھائے گئے اقدامات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔

قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ 113الاٹیوں نے غیر قانونی تعمیرات کیں۔پاکستان سٹیل مل کے پاس کوئی فورس نہیں ہے حکومت سندھ اور سندھ کنٹرول بلڈنگ اتھارٹی معاملات بہترکر سکتی ہے ۔پاکستان سٹیل ملز کے تمام پلاٹ الاٹیوں کو الاٹ کر دیئے گئے ہیں البتہ ڈویلپمنٹ کام نہ ہونے کیو جہ سے قبضے نہیں دیئے گئے،رہائشی پلاٹوں کی تعداد1104فیز Iاور IIکے لئے اور کمرشل پلاٹوں کی تعداد133ہے جبکہ فیزIIIکیلئے کل رپائشی پلاٹوں کی تعداد 3210اور کمرشل پلاٹ176ہیں۔

فیزI ۱ورII میں غیر قانونی تعمیر کی گئی ہے ۔پاکستان سٹیل ملز ان کے خلاف عدالت میں بھی گئے ہیں۔غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کیس ایف آئی اے اور نیب کو بھی بھیجا ہے۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر یدایت اﷲ نے ہدایت کی کہ نجکاری کا پروسیس شفافیت کے ساتھ کیا جائے۔ ملازموں اور مزدوروں کے مسائل کو فوری طور پر حل کیا جائے۔