مسئلہ فلسطین حل کئے بغیر مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہوسکتا ٗ صدر ممنون حسین

عالمی برادری طویل عرصہ سے حل طلب مسئلہ کے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق منصفانہ حل اپنا کردار ادا کرے ٗخطاب

پیر 7 مارچ 2016 20:28

جکارتہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔07 مارچ۔2016ء) صدر مملکت ممنون حسین نے کہا ہے کہ مسئلہ فلسطین حل کئے بغیر مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہوسکتا ٗ عالمی برادری طویل عرصہ سے حل طلب مسئلہ کے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق منصفانہ حل اپنا کردار ادا کرے ۔انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں پیر کو او آئی سی کے فلسطین اور القدس کے معاملہ پر پانچویں غیر معمولی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر نے کہا کہ ہمیں مشرق وسطیٰ میں دو ریاستوں فلسطین اور اسرائیل کے امن وسلامتی کے ساتھ ایک دوسرے کے پڑوس میں وجود کے مقصد کے حصول کی جدوجہد کرنا چاہئے۔

او آئی سی کے اس غیر معمولی اجلاس جس کا عنوان’’یونائیٹڈ فارجسٹ سلوشن‘‘ (منصفانہ حل کیلئے متحد) رکھا گیا تھا کی میزبانی فلسطینی صدر محمود عباس کی درخواست پر انڈونیشیا نے کی اور اس میں او آئی سی کے رکن 49 مسلم ممالک کے سربراہان مملکت وحکومت نے جمع ہو کر مسئلہ فلسطین کے حل پر غور اور بڑھتے ہوئے اسرائیلی مظالم پر تشویش کا اظہار کیا۔

(جاری ہے)

صدر پاکستان نے اس بین الاقوامی فورم پر پاکستان کی قومی زبان اردو میں اپنے خطاب میں اسرائیلی کی معتصبانہ پالیسیوں پر تفصیلی اظہار خیال کیا۔ انہوں نے بے گناہ اور نہتے فلسطینی باشندوں کے خلاف اسرائیل کی طرف سے طاقت کے اندھا دھند استعمال کا ذکر کیا اور مغربی کنارے کے علاقے میں یہودی بستیوں کی تعمیر کو بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی قرار دیا۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ اسرائیل یہودی بستیوں کی تعمیر، فصیل کی تعمیر ، مسجد اقصیٰ کے قریب کھدائی اور فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنے جیسے اقدامات مسئلہ کے حل تک بند کرے کیونکہ ایسے اقدامات موجود صورتحال کوتبدیل کرسکتے ہیں۔ صدر نے کہا کہ پاکستان اسرائیل اور فلسطین کے درمیان براہ راست مذاکرا ت کا حامی ہے لیکن یہ مذاکرات بین الاقوامی طور پر مسلمہ حدود میں اور واضح اہداف اور وقت کے واضع تعین کے ساتھ ہونے چاہئیں۔

ایسی صورتحال میں جب اسرائیل ان اصولوں کی پاسداری کرتا دکھائی نہیں دیتا ، ہم مسئلہ فلسطین کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے اور زیادہ بین الاقوامی اثر ورسوخ کے حصول کی کوششوں کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ صدر نے پاکستانی عوام کی طرف سے اپنے فلسطینی بھائیوں کی مکمل حمایت و تعاون کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے عوام فلسطینیوں کے مسئلہ کو اپنا مسئلہ سمجھتے ہیں۔

انہوں نے اسرائیل کے مقبوضہ عرب علاقوں سے مکمل انخلاء ، فلسطینیوں کے حق خودارادیت اور 1967 سے قبل کی سرحدوں پر مشتمل آزاد و خودمختار فلسطینی ریاست جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہو ، بارے پاکستان کے موقف کا اعادہ کیا۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی 11 دسمبر 1948 کی قرارداد نمبر 194 ( III) اور قرارداد نمبر 1860 سمیت سلامتی کونسل کی تمام متعلقہ قراردادوں کے تحت فلسطینیوں کے تمام مسائل کے منصفانہ حل کا بھی مطالبہ کیا۔

انہوں نے فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور مذہبی آزادی کی بحالی کا بھی مطالبہ کیا۔انہوں نے کہا کہ امت مسلمہ کو اس وقت کئی چیلنجز کا سامنا ہے جن میں امتیازی سلوک اور عالمی مرکزی دھارے میں شامل نہ کئے جانے کا چیلنج بھی شامل ہے۔ اس وقت امت مسلمہ کو جس خونریزی اور عدم استحکام کا سامنا ہے پہلے کبھی نہ تھا، انہوں نے کہا کہ اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ امت مسلمہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں اور مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے مشترکہ موقف اپنانے میں ناکام رہی ہے۔

او آئی سی کے خصوصی اجلاس کو اہم قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ اجلاس ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب فلسطینی باشندوں کے خلاف اسرائیلی حکام کی پرتشددکارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے اور حالیہ مہینوں کے دوران بیسیوں فلسطینی مارے گئے۔ انہوں نے 2014ء میں غزہ میں اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کے قتل عام کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات افسوسناک ہے کہ دنیا خاموش تماشائی بن کر فلسطینی مردوں، عورتوں اور بچون کو مرتے دیکھتی رہی۔

تقریب سے خطاب میں انڈونیشیا کے صدر جوکوودودو نے کہا کہ او آئی سی کا قیام 1969 میں القدس پر اسرائیلی قبضے کے پس منظر میں عمل میں لایا گیا اس تنظیم کو مسئلہ فلسطین کے حل میں زیادہ موثر کردارادا کرنا چاہئے۔ فلسطینی صدر محمود عباس نے اسرائیلی کارروائیوں کو حقوق انسانی کی خلاف ورزی قراردیا اور کہا کہ وقت آگیا ہے کہ تاریخ کے طویل ترین عرصہ سے حل طلب مسئلہ فلسطین کو حل کیاجائے اور فلسطین کو ایسی خودمختار ریاست بنایا جائے جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہو۔ او آئی سی کے سیکرٹری جنرل ایاد امین مدنی نے مسئلہ فلسطین کے حل کی کوششیں تیز کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے فلسطینی باشندوں کو صحت اور دیگر سہولتوں کی فراہمی کیلئے امداد کی فراہمی میں اضافے کامطالبہ کیا۔