ڈاکٹرصغیر احمد بھی ایم کیو ایم چھوڑ گئے ،صوبائی اسمبلی کی نشست پی ایس 117سے مستعفی ہونے کا اعلان

ہم نے خدا کو بھلا کر ایک شخص کو خدا درجہ دیا ،اپنے ماں باپ ،فیملی سب کو داؤ پر لٹایا ،اتنی خدمت ،سروس خدا کیلئے کرتے تو نہ جانے کس مقام پر ہوتے مہاجر صوبے کی سیاست یا مہاجر کارڈ قوم کیلئے ،ذاتی مفاد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے،اتنے لوگ اس کاررواں کا حصہ بنیں گے کہ گالیاں ،پریس کانفرنسیں بھی کم پڑجائینگی ،مصطفی کمال ،انیس احمد قائم خانی کے ہمراہ پریس کانفرنس

پیر 7 مارچ 2016 19:50

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔07 مارچ۔2016ء) متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما ڈاکٹرصغیر احمد نے ایم کیو ایم چھوڑ کرسابق سٹی ناظم مصطفی کمال اور انیس قائم خانی کی جماعت میں شمولیت اور اپنی سندھ اسمبلی کی نشست پی ایس 117سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا ہے ۔ڈاکٹرصغیر احمد نے کہا ہے کہ ہم نے خدا کو بھلا کر ایک شخص کو خدا درجہ دیا ہوا تھا ۔

اپنے ماں باپ اور فیملی سب کو داؤ پر لٹایا اتنی خدمت اور سروس خدا کے لیے کرتے تو نہ جانے کس مقام پر ہوتے ۔زیادتیاں دیکھ کر میرے اب مزید خاموش رہنا ممکن نہیں تھا ۔اس جماعت میں کوئی پیراشوٹ سے اتر کر آتا ہے تواس کے پاؤں دھو دھو کر پئے جاتے ہیں ۔جبکہ کارکنوں کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا جاتا ہے ۔اردو بولنے والے ملک دشمن نہیں ہیں ۔

(جاری ہے)

آج تمہاری وجہ سے مہاجروں کو ملک دشمن اور ’’را‘‘ کا ایجنٹ سمجھا جاتا ہے۔

اردو بولنے والوں کی حب الوطنی مذاق بن کر رہ گئی ہے ۔ارباب اقتدار اور سنجیدہ حلقوں سے اپیل کرتا ہوں کہ مہاجر کمیونٹی کو واپس قومی دھارے میں لایا جائے ۔مہاجر صوبے کی سیاست یا مہاجر کارڈ قوم کے لیے نہیں بلکہ اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔اتنے لوگ اس کاررواں کا حصہ بنیں گے کہ گالیاں اور پریس کانفرنسیں بھی کم پڑجائیں گی ۔

’’وطن کے اداس لوگوں اپنے آپ کو سنبھالو ،خود کو کمتر مت سمجھو ۔جو قوم حق بات پر یکجا ہوتی اس قوم کا حاکم ہی فقط اس کی سزا ہے‘‘ ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو ڈیفنس میں ایم کیو ایم چھوڑنے والے رہنماؤں مصطفی کمال اور انیس قائم خانی کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ڈاکٹر صغیر احمد نے کہا کہ پاکستان پوری دنیا میں مثبت پیغام اجاگر کرنے کے لیے آیا ہوں ۔

مصطفی کمال اور انیس قائم خانی کے ساتھ مل کر پاکستان کی ترقی کے لیے کردار ادا کرنا چاہتا ہوں تاکہ پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے ۔ دنیا کا مضبوط ترین بن سکے ۔ ملک دشمن قوتوں کے عزائم ناکام ہو سکیں ۔ انہوں نے کہا کہ کراچی ترقی کرے گا تو سندھ اور پاکستان ترقی کریں گے ۔ آج یہاں اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے مصطفی کمال اور انیس قائم خانی کے ساتھ شامل ہو رہا ہوں ۔

کراچی کے گلی محلوں میں ظلم ہوتے دیکھ رہا تھا ۔ آج میری سوچ تبدیل ہو چکی ہے ۔ مثبت سوچ کے تحت قدم اٹھایا ہے اور پہل کی ہے ۔ میرا ان دونوں رہنماؤں سے پہلے کبھی کوئی رابطہ یا تعلق نہیں تھا ۔ ایم کیو ایم میں لوگ آتے اور جاتے رہتے ہیں لیکن کسی سے کوئی رابطہ نہیں رکھا جاتا ۔ میں سنتا تھا کہ مصطفی کمال اورانیس قائم خانی اسلام آباد میں ہیں یا ایجنسیوں کی تحویل میں ہیں یا وہ تحریک انصاف میں شامل ہو رہے ہیں ۔

ان معاملات میں راتوں کو لوگوں کو بلایا جاتا ہے ۔ کچھ دن گزر جاتے تھے لیکن پھر کچھ نہیں ہوتا تھا ۔ میں بحیثیت پاکستانی سندھ کا باسی اور کراچی کا باشندہ ہوں ۔ اردو کمیونٹی سے تعلق رکھتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ اب ہمیں اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پتہ کیوں ایم کیو ایم میں دو افراد کو لے کر اتنی گھبراہٹ اور خوف کیوں ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں سیاست کرنی ہے تو ملک کے لیے سیاست کرنی چاہئے لیکن یہاں سیاست ملک کے لیے نہیں بلکہ اپنے لیے کی جاتی ہے ۔ 6 مئی 2014 کو ج واقعہ ہوا ، اس میں سیاست کہاں تھی ۔ سیاست خدمت کے لیے کی جاتی ہے ۔ 2005 سے 2008 تک ایم کیو ایم میں رول ماڈل سیاست تھی لیکن بعد میں اقتدار سے چمٹا رہنا سیاست کا محور بنا لیا ۔ اپنی عزت کا سودا کیا گیا ۔

کبھی زیادہ قیمت پر اور کبھی کم قیمت پر ۔ میں بھی اسی نظام کا حصہ رہا ہوں ۔ تمام حالات دیکھتا رہا لیکن خون کے گھونٹ پی کر برداشت کیا لیکن اب میں نے اس سیاست کو خیر آباد کہہ دیا ہے ۔ آج باضمیر لوگوں کے ساتھ شامل ہو رہا ہوں ۔ مزید باضمیر لوگ ہمارا حصہ بنیں گے ۔ کوئی ڈر اور خوف کی بات نہیں ہے ۔ نہ ہی کوئی وفاداری تبدیل کرانے آئے گا ۔ نہ ہی دفاتر پر قبضہ ہو گا ۔

انہوں نے کہا کہ خوفزدہ ہونے والے بتائیں کہ کیا ان کے دفاتر پر قبضہ کیا گیا یا الطاف حسین کی تصویر پر سیاسی ملی گئی یا الطاف حسین کی تصویر پر جوتوں کا ہار ڈالا گیا ۔ 19 جون 1992ء کے حالات خود دیکھیں ہیں ۔ جمعہ کا دن تھا ۔ ٹرک بھر کر آیا اور وفاداریاں تبدیل کرائی گئیں ۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت کے حالات اور آج کے حالات میں بہت فرق ہے ۔ ہمارے ساتھ اتنے لوگ شامل ہوں کہ گالیاں اور پریس کانفرنس کم پڑ جائیں گی ۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا ضمیر مطمئن ہے ۔ پہلے گالیاں دی جاتی ہیں پھر لوگ معافیاں مانگتے ہیں ۔ یہ کیا سیاست ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ مجھے وزیر اور مصطفیٰ کمال کو سٹی ناظم بنایا گیا ۔ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ تمہیں کس نے بنایا ہے ۔ تمہیں بھی اس خدا نے بنایا ہے ، جس نے سب کو پیدا کیا ہے ۔ تم کو قوم نے مینڈیٹ دیا ہے لیکن اس مینڈیٹ کے بدلے تم نے قوم کو کیا دیا ۔

موت کے انجیکشن ، نشے دھت ہو کر تقریریں کرنا ۔ مرد اور عورت کے ملاپ کی باتیں کرنا ۔ کیا کوئی باضمیر شخص اپنی بہن بیٹیوں کے ساتھ یہ بات سن سکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنا سب کچھ اس جماعت کے لیے وقف کر دیا ۔ ماں باپ کے جنازے چھوڑے دیئے ۔ رشتہ داروں سے تعلق ختم کر دیا لیکن بدلے میں ہمیں کیا ملا ۔ کیا ہم نے عوامی مینڈیٹ کا احترام کیا ۔

انہوں نے کہا کہ ’’ را‘‘ کے حوالے سے جو باتیں سامنے آئی ہیں ، وہ سب کو پتہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آج تمہاری وجہ سے مہاجروں کو ملک دشمن اور ’ را‘ کا ایجنٹ سمجھا جاتا ہے ۔ ایم کیو ایم کا ایک ایک کارکن پاکستان دشمن نہیں ، سب محب وطن ہیں ۔ ارباب اقتدار اور سنجیدہ حلقوں سے درخوست کرتا ہوں کہ وہ مہاجر قوم کو قومی دھارے میں لائیں ۔

انہوں نے کہا کہ تہماری وجہ سے مہاجر قوم کی حب الوطنی مذاق بن گئی ہے ۔ کارکنوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔ ان کو گرفتار کیا جا رہا ہے ۔ لاپتہ ہونے کا سلسلہ جاری ہے ۔ ان کے گھر والے لاشیں اٹھا رہے ہیں لیکن تمہیں ہوش نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ خدا کے واسطے کارکنوں پر رحم کرو ، کارکنوں کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرنا چھوڑ دو ۔ کارکنوں کا کام کیا صرف جھنڈے لگانا یا بیریئر کھولنا ہی رہ گیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ جس کے گھر سے جنازے اٹھتے ہیں ، یہ انہیں پتہ ہوتا ہے ۔ کارکن کام دھندے پر تو جاتے نہیں تھے ان کا کام خدمت گار کی حیثیت سے تھا اور جب حالات تبدیل ہوئے تو کہا کہ نوکریوں پر جاؤ اور پھر ان کی گرفتاریاں ہوئیں ۔ کیا تمہیں لوگوں نے ووٹ اور مینڈیٹ اس لیے دیا تھا کہ تم لوگوں کو خدمت گار بناؤ ۔ انہوں نے کہا کہ اگست کے حالات کو کوئی بھول نہیں سکتا ۔

لوگوں کو بسوں سے شناختی کارڈ دیکھ دیکھ کر اتارا گیا ۔ بد فعلیاں کی گئیں ۔ اس کی ویڈیو بنائی گئیں ۔ لوگوں نے ایک ہی دن میں 30 سے 35 لاشیں اٹھائیں ۔ کہا جاتا تھا کہ جنازے لے کر وزیر اعلیٰ ہاؤس جاؤ اور احتجاج کرو ۔ جب احتجاج کیا جاتا تو پھر اچانک احتجاج ختم ہو جاتا اور پتہ ہی نہیں لگتا کہ سودا کس قیمت پر ہو گیا ۔ را کے ساتھ تعلقات کے بارے میں دنیا جانتی ہے ۔

اسکاٹ لینڈ یارڈ اور حکومتی اداروں کو بھی پتہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم میں اگر کوئی کارکن کچھ کہنا چاہتا ہے تو وہ ڈر کے مارے کچھ نہیں کہتا ۔ آج تعلیم ہمارا زیور نہیں رہی ہے ۔نچلے طبقے میں کارکنان پڑھے لکھے نہیں ہیں ۔ لوگوں نے اپنی جانیں تمہارے لیے وقف کر دی ہیں ۔ شہداء اور اسیروں کے اہل خانہ کا کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔ لوگ جب وہاں جاتے ہیں اور کچھ کہتے ہیں تو انہیں دھکے مار کر نکال دیا جاتا ہے ۔

انہوں نے سوال کیا کہ اربوں روپے کیوں لیتے ہو ، سمجھ نہیں آتا ۔ 5 دسمبر آیا تو کہا کہ مہاجر صوبے کی تحریک چلے گی کیونکہ مہاجروں کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے ۔ یہ مہاجر کارڈ صرف ذاتی مفاد کے لیے خرچ ہوتا ہے ۔ جب بھی تمہارے اوپر برا وقت آتا ہے تو تم مہاجروں کا سہارا لیتے ہو اور ان کے پیچھے چھپ جاتے ہو ۔ گھنٹو ن گھنٹوں لوگوں کے سامنے تقریر کی جاتی ہے ۔

اپنا دکھڑا سنایا جاتا ہے لیکن ان کے دکھوں کو کوئی نہیں سمجھتا ، جس نے تمہیں بنایا ہے ۔ بس تم یہ سمجھتے ہو کہ لاشیں گرتی رہیں اور تمہاری سیاست عروج پر رہے ۔ ڈاکٹر صغیر احمد نے کہا کہ لوگوں نے مینڈیٹ دے کر 135 سے زائد یو سی ناظمین منتخب کرائے ۔ کیا تم نے عوام کو کچھ فائدہ دیا ۔ ٹکرز تمہاری سیاست اور ٹاک شو تمہارا منشور بن گیا ہے ۔ تمام پاکستانیوں سے کہتا ہوں کہ آگے بڑھو اور ملک کی ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کرو ۔

ہر شخص آزاد ہے ۔ اس کی مرضی ہے ، وہ جیسا کھانا کھائے ۔ کروڑوں لوگوں کے لیڈر ہونے والا دعویٰ کرتے ہو ۔ یہ بتایا جائے کہ 14 جون 2014 کو جو دھرنا ہوا ، اس میں کتنے لوگ تھے ۔ انہوں نے موجودہ حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ شعر پڑھا کہ ’’ چلتے ہیں دبے پاؤں کوئی جاگ نہ جائے ، غلامی کے اسیروں کی یہی خاص ادا ہے ، جو قوم حق بات پر یکجا نہیں ہوتی ، اس قوم کا حاکم ہی فقط اس کی سزا ہے ۔

‘‘ وطن کے اداس لوگوں اٹھو ،اس وطن کو سنبھالو ۔ انہوں نے کہا کہ یہ کون سا شہر ہے ، جہاں لہو بہتا ہے ۔ ہر دو دروازے بعد چوتھے دروازے پر دستک دو تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں سے کوئی شخص مر چکا ہے یا اس کی لاش اٹھ چکی ہے ۔ ہم کتنے جوانوں کی لاشیں اٹھائیں گے۔ ہمیں اپنی غلطیاں اور کوتاہیوں پر سبق سیکھنا ہو گا ۔ جو بچہ اسکول نہیں جائے گا ، وہ چھوٹو ہی بنے گا ۔

انہوں نے کہا کہ 28 برس سے میرا ایم کیو ایم سے رشتہ رہا ہے ۔ میں آج اپنے ووٹرز سے معافی مانگتا ہوں اور اپنی صوبائی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہونے کا اعلان کرتا ہوں ۔انہو نے کہا کہ جو شخص را سے مدد مانگتا ہے ، وہ کہتا ہے کہ کیا ہوا کہ میں نے را سے مدد مانگی ۔ ہوش میں آنا چاہئے ۔ ہم اس ملک کے وفادار ہیں ۔ میں اسمبلی میں پچھلی نشستوں پر بیٹھا رہا ۔

حالات کا جائزہ لیتا رہا ۔ میں اسمبلی کے قواعد جانتا ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ رنچھوڑلائن اور دیگر علاقوں میں جاتا تھا ۔ وہاں ہم نے لاشیں اٹھائی ہیں ۔ لوگوں کے دکھوں کو دیکھا ہے ۔ ہمارے سروں پر کسی کا ہاتھ نہیں ، صرف اﷲ کا ہاتھ ہے ۔ میں نے ایم کیو ایم کسی دباؤ میں نہیں بلکہ خود علیحدہ ہوا ہوں ۔ میں کہتا ہوں کہ اسلحہ پکڑو لیکن اسلحہ بنانے والی فیکٹریوں کو بھی ختم کرو ۔

اس مائنڈ سیٹ اور برین واشنگ کرنیو الوں کا بھی خاتمہ کرو ، جو اس ملک کے خلاف سازش کر رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ سب کے لیے ہمارے دروازے کھلے ہیں ۔ ہمیں پتہ ہے کہ باضمیر لوگ آئیں گے ، بے ضمیر نہیں آئیں گے ۔ اس موقع پر مصطفیٰ کمال نے کہا کہ جو لوگ ہم سے ثبوت مانگنے یا کمیٹی میں پیش ہونے کی باتیں کر رہے ہیں ، میں کہتا ہوں کہ ثبوت مانگنے سے وہ ان ثبوتوں پر کام کریں ، جو ان کے پاس موجود ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر صغیر احمد اپنی مرضی سے شامل ہوئے ہیں ۔ دنیا بھر سے ہمارے پاس پیغامات آئے ہیں ۔ لوگوں نے ہمارے مشن کو سراہا ہے ۔ ہمارا ٹارگٹ کوئی بڑی شخصیت نہیں ہے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ نچلی سطح سے کارکنان اور لوگ ہمارے ساتھ شامل ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف یا کسی جماعت سے ہمارا کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے اور نہ ہی ہم کسی جماعت میں شامل ہو رہے ہیں ۔

ہمارا جھنڈا پاکستان کا جھنڈا ہے ۔ ہمارے پاس جو لوگ آ رہے ہیں ، ان کے ٹیلیفون نمبر اور پتہ معلوم کر رہے ہیں ۔ ان کا تعلق کس تنظیم ، مذہب یا مسلک سے ہے ۔ یہ ہم نہیں پوچھ رہے ۔ انہوں نے کہا کہ انڈین را سے رابطہ رکھنے والا آدمی جب صوبے کی بات کرے گا تو اس سے صاف ظاہر ہو گا کہ ملک کے خلاف سازش کر رہا ہے اور وہ اسی ملک کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے ۔

مصطفی کمال نے کہا کہ جو تمہارا ہے ، وہ تمہارا ہی رہے گا ۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کے لوگ جب چاہیں ، انتظامی صوبے بن جائیں گے ۔ بس ہم چاہتے ہیں کہ ہماری کمیونٹی قومی دھارے میں شامل ہو ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں قیامت تک تو چار صوبے نہں رہ سکتے ۔ تاہم یہ عوام کی مرضی پر منحصر ہو گا ۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر صغیر احمد کا تعلق پی آئی بی کالونی سے ہے ۔وہ 2005میں پہلی مرتبہ رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے ۔2008اور 2013کے انتخابات میں بھی رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے ۔وہ اس وقت بھی پی ایس 117سے ایم پی اے ہیں ۔وہ صوبائی وزیر ماحولیات اور دو مرتبہ وزیر صحت رہ چکے ہیں ۔اے پی ایم ایس او کے علاوہ ایم کیو ایم کی میڈیکل ایڈ کمیٹی سے وابستہ رہنے کے علاوہ رابطہ کمیٹی کا بھی حصہ رہ چکے ہیں ۔