قائمہ کمیٹی برائے ہاؤسنگ و تعمیرات کے اجلاس میں وفاقی وزیر ہاؤسنگ کا اپنی بے بسی کا اعتراف

جمعرات 3 مارچ 2016 16:13

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔03 مارچ۔2016ء) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے ہاؤسنگ و تعمیرات کے اجلاس میں وزیر ہاؤسنگ اکرم خان درانی نے اپنی بے بسی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ وزارتوں کے سرکاری ملازمین مکانوں پر قابض ہیں‘ 518 ریٹائرڈ ملازمین دس سالوں سے مکانوں پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں‘ کئی لوگوں کو مکانوں سے نکالا گیا مگر دوبارہ آجاتے ہیں‘ وزارت کے ماتحت ادارے اسٹیٹ آفس کے پاس اختیار ہی نہیں‘ اکرم خان درانی نے اجلاس میں انکشاف کیا کہ اسٹیٹ آفس کی عمارت جلی نہیں بلکہ ریکارڈ سمیت جلائی گئی‘ 17000لوگ سرکاری مکانوں میں رہ رہے ہیں‘ 19500 افراد جنرل ویٹنگ لسٹ پر ہیں‘ کمیٹی رکن غلام سرور خان نے کہا کہ وزارت کی بے بسی کی حد ہے کہ 2880 لوگ جو مکانوں پر قابض ہیں۔

(جاری ہے)

ان کی معلومات اور اعداد و شمار ہی وزارت کے پاس نہیں ‘ کمیٹی نے وزارت ہاؤسنگ پر قابض افراد کا جائزہ لینے کے لئے کمیٹی رکن رجب علی بلوچ کی سربراہی میں پانچ رکنی ذیلی کمیٹی بنا دی۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مکانات و تعمیرات کا اجلاس چیئرمین کمیٹی حاجی اکرم انصاری کی صدارت میں ہوا۔ اجلاس میں مندرہ چکوال سڑک کی توسیع ‘ سوہاوہ چکوال روڈ کی تعمیر کے حوالے سے کمیٹی کو بریفنگ دی گئی۔

پاک پی ڈبلیو ڈی حکام نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ 4.4 ارب روپے کا یہ منصوبہ فنڈ کی عدم دستیابی کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوا تکمیل کی معیاد 31دسمبر 2015 تھی مگر اب یہ منصوبہ دسمبر 2016 میں مکمل ہوگا ہمیں اپنے کام مکمل کرنے کے لئے تین ارب روپے مزید درکار ہیں جس کی ڈیمانڈ متعلقہ وزارت سے کی گئی ہے۔ موسیٰ خیل تونسہ روڈ منصوبے کے حوالے سے حکام نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ 2006-07 میں اس منصوبے کو منظور کیا گیا تھا جو کہ مئی 2007 میں شروع ہوا تین سال میں اس روڈ کے پہلے ٹھیکے نے مکمل ہونا تھا 45 کروڑ 68 لاکھ معاہدے کی رقم تھی اب تک 21کروڑ روپے کا کام مکمل ہوچکا ہے۔

وزیر ہاؤسنگ و تعمیرات نے کمیٹی کو بتایا کہ ہماری کارکردگی بہتر ہوئی ہے اور اڑھائی سالوں میں ہم نے قبضہ مافیا کی نشاندہی کی ہے مگر ہمارے پاس اختیار ہی نہیں جس کی وجہ سے ہم بعض قابضین پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے۔ کمیٹی اسٹیٹ آفس کو اختیارات تفویض کرنے کی سفارش کرے جس پر کمیٹی نے اختیارات تفویض کرنے کی سفارش کی۔ رجب علی بلوچ کی سربراہی میں قائم کردہ ذیلی کمیٹی میں طاہرہ اورنگزیب‘ غلام سرور خان‘ خالدہ پروین اور مولانا امیر زمان شامل ہیں۔