قائم مقام چیئرمین پیمرا نے غلط فیصلے کئے، گناہ سے پہلے سزا کاطریقہ کار کہیں نہیں،کامل علی آغا

بول ٹی وی کے حقائق عوام کے سامنے رکھیں، 2200 ملازمین کے خاندان کاسوچنا ہمارا فرض ہے،حکومت نے طاقتوروں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے بول کے حوالے سے ترجیحی بنیادوں پر کام کیاجائے،وزارت داخلہ کمیٹی کو باقاعدہ بریفنگ دے کہ اصل مسئلہ کیا ہے،چیئرمین کمیٹی کی ہدایت

بدھ 2 مارچ 2016 17:52

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔02 مارچ۔2016ء) سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات ونشریات اور قومی ورثہ کے چیئرمین کامل علی آغا نے کہا ہے کہ قائم مقام چیئرمین پیمرا نے جو بھی فیصلے کئے ہیں وہ غلط ہیں ، گناہ سے پہلے سزا کاطریقہ کار کہیں بھی نہیں ہوتا ، پیمرا اپنے غلط فیصلوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے انصاف کا بول بالا کرے ۔ کمیٹی کا اجلاس بدھ کے روز پارلیمنٹ لاجز میں ہوا ۔

کمیٹی کو وفاقی سیکرٹری اطلاعات ونشریات محمد عمران گردیزی نے بتایا کہ ضابطہ اخلاق سے متعلق وزارت اطلاعات تمام سٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کر کام کرے گی ایسا قانون بنانے کی ضرورت ہے جس میں کسی بھی سٹیک ہولڈر کو کوئی مسئلہ نہ ہو اور اس پر متفق ہوں کمیٹی نے ضابطہ اخلاق کے قانون میں چیئرمین پیمرا کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا سیکرٹری اطلاعات نے بتایا کہ دنیا بھر میں پاکستانی سفارتخانوں میں پریس آفیسرز کی تعیناتی کیلئے ٹیسٹ لیا جائے گا اور میرٹ کی بنیاد پر 75فیصد افسران وزارت اطلاعات سے ہی جائینگے چیئرمین کمیٹی کامل علی آغا نے کہا کہ بول ٹی وی چینل کے حوالے سے حقائق عوام کے سامنے رکھے جائیں ۔

(جاری ہے)

نجی ٹی وی چینل کے 2200 ملازمین ہیں جن کے خاندان کے بارے میں سوچنا ہمارا فرض ہے انہوں نے کہا کہ طاقتورو ں نے طاقت کا مظاہرہ کیا اور حکومت نے گھٹنے ٹیک دیئے ۔ انہوں نے چیئرمین پیمرا کو ہدایت کی کہ بول ٹی وی چینل کے حوالے سے مثبت پیش قدمی کرے اور اس کیس میں فریق بنے کامل علی آغا نے چیئرمین پیمرا سے استفسار کیا کہ بول ٹی وی کا لائسنس کیوں منسوخ کیا گیا ہے جس پر چیئرمین پیمرا نے بتایا کہ بول ٹی وی کا مالک ایک غیر ملکی کمپنی کا مالک اور غیر قانونی کمپنی چلاتا تھا جس کی بنیادپر لائسنس منسوخ کیا گیا ہے اس پر چیئرمین کمیٹی نے چیئرمین پیمرا کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے صرف ایک درخواست پر بول ٹی وی کا لائسنس منسوخ کردیا ہے پمیرا کے پاس ایک طاقت ہے جو وہ استعمال کرسکتا ہے چیئرمین پیمرا نے کہا کہ ہمارے ہاتھ قانون سے بندھے ہوئے ہیں ہم اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ کوئی عمل کریں سکیورٹی کلیئرنس کامعاملہ وزارت داخلہ کا ہے اور وہی اس کا جواب دے سکتی ہے سینیٹر سعید غنی نے کہا کہ ہمیں بتایا جاسکتا ہے کہ بول ٹی وی کا سازوسامان کہاں سے آیا تھا ایک چیز 2013ء میں کینسل ہوگئی اور وہ پھر بھی کام کررہا تھا اور لگتا ہے کہ وزارت اطلاعات نہیں چاہتی کہ بول ٹی وی چینل اپنی ٹرانسمیشن شروع کرے ورنہ ابہام والی کوئی بات نہیں ہے جس پر چیئرمین پیمرا نے بتایا کہ پچیس مارچ دو ہزار تیرہ کو ایک ٹی وی چینل نے این او سی حاصل کیا تھا لیکن نو اپریل کو پاکستان کی خفیہ ایجنسی کی جانب سے ایک لیٹر لکھا گیا تھا کہ آپ نے این او سی کیوں جاری کیا ہے اور پھر تین جولائی دو ہزار تیرہ میں نئی کابینہ آگئی آخر میں چیئرمین قائمہ کمیٹی نے وزارت اطلاعات و نشریات کو ہدایت کی کہ بول کے حوالے سے ترجیحی بنیادوں پر کام کیاجائے بول کیخلاف دائر ہونے والی درخواستیں اور سکیورٹی کلیئرنس این او سی کی منسوخی کے حقائق سامنے لائے جائیں اور انہوں نے یہ بھی ہدایت کی کہ اگلی میٹنگ میں وزارت داخلہ کے لوگ اس حوالے سے ہمیں باقاعدہ بریفنگ بھی دیں کہ آیا اصل مسئلہ کہاں سے اور کیسے ہوا ہے

متعلقہ عنوان :