رحیم یارخان،قدیم تہذیب و ثقافت کو بچا کر چولستانی علاقوں کو ملکی وغیر ملکی سیاحوں کی توجہ کا مرکز اورٹورازم کو فروغ دیا جا سکتاہے،ممتاز بیگ

بدھ 2 مارچ 2016 13:06

رحیم یارخان ۔ 2 مارچ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔02 مارچ۔2016ء) تاریخی قلعے ہمارا قومی اثاثہ ہیں۔قدیم تہذیب و ثقافت کو بچانے کیلئے کھنڈر بنتے قلعوں کو اپنی اصلی شکل میں بحال کرکے چولستانی علاقوں کو ملکی وغیر ملکی سیاحوں کی توجہ کا مرکز اورٹورازم کو فروغ دیا جا سکتاہے۔ ابو ظہبی پیلس سے قلعہ ڈیراور جانے والی شاہراہ پر ٹی چوک تک 60کلو میٹر علاقہ میں5 نئے شہر آباد کرکے موجودہ شہروں پر آبادی کا دباؤ کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

ان خیالات کا اظہار معرو ف سماجی کارکن ممتاز بیگ نے چولستان کے مطالعاتی دورے اور 78کلومیٹر پر واقع 1775ء میں تعمیر ہونے والے قلعہ خیر گڑھ کی شکستہ حالت دیکھنے کے بعدرحیم یارخان صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ چولستان وہ واحد علاقہ ہے جہاں سے وادی سندھ کی تہذیب کا آغاز ہوا تھا۔

(جاری ہے)

دریائے ہاکڑہ کی اس 3سومیل طویل پٹی میں4 سوسے زائد آبادیاں تھیں جو دریا کا رخ بدلنے، بعد میں آنے والی قوموں کے حملوں یا قدرتی آفات کی وجہ سے ختم ہو گئیں۔

یہ علاقہ کسی زمانے میں تجارتی قافلوں کی گزرگاہ، سر سبزوشاداب اور خوشحال انسانوں سے آبادتھا لیکن اب حد نگاہ ویرانی اور ریت کے ٹیلے نظر آتے ہیں۔قلعہ اسلام گڑھ ، قلعہ میرگڑھ،قلعہ جام گڑھ، قلعہ موج گڑھ، قلعہ مروٹ، قلعہ رام کلی،قلعہ خان گڑھ، قلعہ خیرگڑھ، قلعہ نواں کوٹ،قلعہ بجنوٹ، قلعہ ڈیراور،قلعہ چانڈا کھانڈا،قلعہ بھاگلہ،قلعہ قائم پوروغیرہ ہمارا تہذیبی اور ثقافتی ورثہ ہیں۔منتخب نمائندوں اور متعلقہ اداروں نے ان قلعوں اور ان کے آس پاس موجود وادی سندھ کی تہذیب کے آثار وں کی مناسب دیکھ بھال, تعمیرو مرمت اور اپنی اصلی حالت میں بحال کرنے پرخصوصی توجہ نہ دی تویہ بہت جلد مٹی کا ڈھیر اورآنے والی نسلیں اپنے آباو اجداد کی تہذیب و تمدن کو بھول جائیں گی ۔