سال 2075ء تک دنیا کے آدھے علاقے شدید گرمی کی لپیٹ میں ہوں گے‘رپورٹ

ہفتہ 27 فروری 2016 16:12

نیو یارک ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔27 فروری۔2016ء) پوری دنیا کی آب وہوا میں کی ڈرامائی تبدیلیاں ہورہی ہیں اور جان لیوا گرمی کی لہروں (ہیٹ ویوز) میں اضافہ ہورہا ہے لیکن 2075ء تک ان کی شدت اور دورانیے میں ہولناک حد تک اضافہ ہوگا۔کلائمٹ چینج نامی جریدے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گرمی کی جو لہر ہر20سال بعد کسی علاقے میں دیکھی جارہی تھیں وہ مستقبل قریب میں اتنی عام ہوں گی کہ گرمی کی لہر ہرسال رونما ہوں گی اور اس کی شدت 2075تک اپنے عروج پر ہوگی۔

نئے مطالعے کے تحت کرہِ ارض کے 60فیصد علاقوں میں گرمی کی لہریں عام ہوں گی اور ان کا اثر مشرقِ وسطی اور افریقہ کے ممالک پر زیادہ ہوگا۔ یہ تحقیق امریکہ میں لارنس لیورمور لیبارٹری کے سائنسداں مائیکل ویہنر اور ان کے ساتھیوں نے کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ مستقبل میں گرمی کی شدید لہریں آج کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہوں گی۔

(جاری ہے)

اپنے تجزیئے کے بعد ماہرین کا خیال ہے کہ گرمی کی یہ لہریں اس سے پہلے ہونے والے واقعات سے زیادہ شدید ہوں گی، زمین کے 60فیصد رقبے پر گرمی کا درجہ حرارت آج کے مقابلے میں 5.4فارن ہائیٹ زیادہ ہوسکتا ہے،اگرچہ یہ بہت زیادہ نہیں لیکن زمین کے حساس نظام اور متاثرہ آبادیوں پر اس کے زیادہ اثرات مرتب ہوں گے، پھر گرمی کا مستقل دورانیہ بچوں اور بوڑھوں دونوں کے لیے ہی ہلاکت خیز ثابت ہوسکتا ہے اور کراچی میں گزشتہ برس گرمی کی لہر میں ہم اس کا مشاہدہ کرچکے ہیں۔

رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ ضروری نہیں کہ ایسا ہی ہو کیونکہ اگر ابھی ہم گرین ہاس گیسوں کے اخراج کو بہت حد تک کم کرلیتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کم کرتے ہیں تو تپش کی اس آفت کو ٹالنا ممکن ہوسکے گا۔ دوسری جانب امریکی قومی مرکز برائے فضائی تحقیق کے ماہرین نے بھی کہا ہے کہ اس صدی کے وسط تک ہم موسم میں غیرمعمولی تبدیلیاں دیکھیں گے۔

متعلقہ عنوان :