ملک کی دوا ساز کمپنیوں نے ادویات کی قیمتوں میں کیا گیا حالیہ اضافہ واپس لینے سے انکار کردیا

ادویات کی قیمتوں کے تنازع پر پاکستان فار ماسیوٹیکل مینو فیکچرز ایسوسی ایشن کو ملٹی نیشنل فارما کمپنیوں کی جانب سے معاملات کو حل کرنے کی پیشکش

جمعہ 26 فروری 2016 22:22

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔26 فروری۔2016ء) ملک کی دوا ساز کمپنیوں نے ادویات کی قیمتوں میں کیا گیا حالیہ اضافہ واپس لینے سے انکار کردیا ہے ۔ ادویات کی قیمتوں کے تنازع پر پاکستان فار ماسیوٹیکل مینو فیکچرز ایسوسی ایشن حکومت کو ملٹی نیشنل فارما کمپنیوں کی جانب سے ادویات کی قیمتوں میں اضافے ، رابطے اور معاملات کو حل کرنے کی پیشکش کی ہے ۔

جمعہ کو مقامی ہوٹل میں پاکستان فارما سیوٹیکل مینو فیکچرز ایسو سی ایشن کے چیئر مین حامد رضا نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ دوا ساز کمپنیوں کی بقاء کے لیے ادویہ کی قیمتوں میں مناسب اضافہ ناگزیر ہے ،قیمتوں میں اضافے کے حالیہ تنازعے کے باعث مارکیٹ میں70ادویات دستیاب نہیں ہیں ، دوا ساز ادارے فلاحی نہیں بلکہ کمرشل ادارے ہیں ،83ہزار رجسٹرڈ ادویات میں سے1400سے زائد دواؤں کی لاگت بڑھ چکی ہے جس کی وجہ سے ابھی150دواؤں کی قیمت میں 15سے20فیصد اضافہ کیا ہے ۔

(جاری ہے)

انھوں نے کہا کہ پاکستان میں ادویات کی قیمتوں میں2001سے اضافہ نہیں کیا گیا ، پندرہ سال قبل ڈالر کی قیمت60روپے تھی جواب100روپے سے تجاوز کرچکی ہے اور اب ادویات کی تیاری کے بعد انھیں مارکیٹ میں پرانی قیمتوں پر فروخت کرنا نا ممکن ہوگیا ہے ۔انھوں نے کہا کہ 160نئی ادویات کی رجسٹریشن کامعاملہ آٹھ سال سے التواء کا شکارہے ، ملک میں 700دوا ساز کمپنیاں تھیں جن میں300بند ہوچکی ہیں، نیشنل ہیلتھ سروسز ادویات کی قیمتوں کے تعین میں سنجیدہ نہیں ہے دواؤں کے بہت زیادہ متبادل ہونے سے مریضوں پر مالی اخراجات کا اضافی بوجھ بڑھے گا، پاکستان میں مریضوں کے لیے 93فیصد ادویات دستیاب ہیں جبکہ7فیصد درآمد کرنا پڑتی ہیں ۔

ان کا کہنا تھاکہ یہ تاثر غلط ہے کہ بھارت میں ادویات پاکستانی مارکیٹ کے مقابلے میں سستی ہیں ،انھوں نے کہا کہ میں دعوے سے کہتا ہوں ہمارے ملک بھارت اور بنگلہ دیش سمیت تمام ممالک کی میڈیسن مارکیٹ کے مقابلے میں پاکستان میں ادویات کی قیمتیں انتہائی کم ہیں۔یہ بات پی پی ایم اے کے چیئرمین حامد رضا نے گذشتہ روز مقامی ہوٹل میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

اس موقع پر زاہد سعید چیئرمین کاٹی، چیئرمین میڈیا ڈاکٹر قیصر وحیداور دیگر بھی موجود تھے ۔چیئرمین پی پی ایم اے نے ادویات کی قیمتوں پر نظر ثانی کے حوالے سے کہا کہ حکومت ادویات کی قیمتوں کے کنٹرول کو عالمی ادارہ صحت کی لازمی ادویات کے مطابق کرے ۔انہوں نے کہا کہ ادویات کی قیمتوں کو چیک کرنے ، نظر ثانی کرنے کے لئے ریگولیٹری پاور میں بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے ۔

حامد رضا نے کہا کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کو ریگولیٹری پاور ز کے تحت عالمی ادارہ صحت کی منظور کردہ فہرست کے مطابق ادویات کی ایک بہتر فہرست بنانے کی ضرورت ہے ۔جو پوری دنیا میں قبول کی جائے ۔ ان ادویات میں جان بچانے والی ادویات اور لازمی ادویات شامل ہیں ۔ اور حکومت عالمی سطح کے فاومولے کے مطابق قیمتوں پر نظر ثانی کرے ۔حامد رضا نے کہا کہ 1976ء کے ڈرگ ایکٹ میں پارلیمنٹ سے تبدیلی کی ضرورت ہے اور حکومت ہر دوائی کی قیمت نہ طے کرے جس سے فارما انڈسٹری کو تحفظ حاصل ہوگا اور اس میں مزید ترقی اور سرمایہ کاری ہوگی ۔

انہوں نے کہا کہ فارما انڈسٹری اپنے منافع کا ایک فیصد فار ما سیو ٹیکل کے شعبے میں تحقیق کیلئے دیتی ہے ۔ مگر حکومت اس فنڈ کاا ستعمال نہیں کررہی اور دنیا میں کے کسی بھی ملک میں تحقیق و ترقی حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے ۔ لہذا اس سلسلے کو ختم کیا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ مقامی ادویہ ساز ادارے ہر وقت ہر جگہ ادویات کی قیمتوں کے حوالے حکومت سے بات کرنے کے لئے موجود ہیں ۔

اور اس تنازعے کو ختم کرنا چاہتے ہیں ۔چیئر پی پی ایم اے نے کہا کہ اس صورتحال سے مریضوں کو خاصی تکلیف کا سامنا ہے ۔ کیونکہ قیمتوں کے تنازع پر جب سے مقامی ادویات ساز اداروں کی ادویات دستیاب نہیں ہونگی تو انہیں ناقابل برداشت ریٹس پر دوائیاں خریدنی پڑے گی ۔پی پی ایم اے کے رہنماوں نے بتایا کہ حالیہ قیمتوں کے تنازعے کے باعث 70سے 80 ادویات مارکیٹ سے غائب ہوگئی ہیں۔

پیداواری لاگت بڑھنے کے باعث 700 لائسنس یافتہ فارما سیوٹیکل میں سے 300 یونٹس گزشتہ دس سال میں بند ہوگئے ہیں جو انڈسٹری کیلئے بحران سے کم نہیں اور نئے کارخانے لگنا بند ہوگئے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں مقامی ادویہ ساز کمپنیاں اس قابل نہیں رہی کہ وہ نقصان اٹھا کر پیداوار جاری رکھ سکیں۔انہوں نے بتایا کہ اس وقت مرگی ، تھائی رائڈز ، دماغی امراض اور دیگر امراض کی ادویات مارکیٹ میں دستیاب نہیں ۔

پی پی ایم اے نے کہا کہ ادویات کی قیمتوں کو 2001 میں منجمند کیا گیا تھا ۔ اسکے بعد انکی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا گیا اور پیداواری لاگت میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا اور اب یہ مقامی اداروں کے بس میں نہیں رہا کہ وہ ادویات کی پیداوار جاری رکھ سکیں اور اداروں کو اب ریلیف کی ضرورت ہے ۔ پی پی ایم اے نے کہا کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کو ادویات کی قیمتوں پر نظر ثا نی کرنے کی ضرورت ہے اور یک طرفہ کاروائی سے صنعت کاروں میں مایوسی پھیل رہی ہے ۔

اور گذشتہ ایک سال سے ڈریپ میں ادویات کی قیمتوں کی درخواست التواء میں ہے اور اس سلسلے میں ٹریپ کودباؤ کا سامنا ہے ۔ ان رہنماؤں نے کہا کہ ہم ایک بزنس سے منسلک ہیں بزنس تب ہی چل سکتا ہے جب اس انڈسٹری کے مسائل کر ترجیحا بنیاد پر حل کیا جائے گا اور حکومت اسے سپورٹ کریگی ۔ انہوں نے کہا کہ ادویات کی قیمتوں میں 15 سے 20 فیصد اضافہ اس انڈسٹری کو بچانے کا معقول حل ہے کیونکہ گذشتہ 15سال میں ڈالر کے نرخ بڑھے ہیں۔

درآمدی خام مال ، پیداواری لاگت ، تنخواہوں میں اضافے اور انتظامی اخراجات میں بے پناہ اضافے کے بعد معمولی اضافہ ضروری ہوگیا ہے ۔ حامد رضا نے کہا کہ پاکستان دنیا کے ممالک میں 9ویں نمبر پر ہے جہاں پر 90فیصد مقامی ادویات دستیاب ہیں جن کے معیار کو عالمی سطح پر قبول کیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ہماری سفارشات پر سنجیدگی سے عمل کرے اور اس بحران کو ختم کرنے میں مدد کرے ۔

متعلقہ عنوان :