ماہی گیری کے لیے سمندر میں جانے والی کشتیوں کا کراچی فشریز ہاربر اتھارٹی سے کوئی رابطہ نہیں ہوتا ہے، سینئر وزیر نثار احمد کھوڑو

70 فیصد کشتیوں کے مالکان نے اپنے طور پر 2 ۔ وے وی ایچ ایف کمیونیکیشن سسٹم نصب کرا لیا ہے ، جس سے وہ مختلف سرکاری اداروں سے رابطے میں رہتے ہیں

جمعہ 26 فروری 2016 21:47

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔26 فروری۔2016ء) سندھ اسمبلی میں جمعہ کو محکمہ ماہی گیری سے متعلق وقفہ سوالات کے دوران سینئر وزیر تعلیم و پارلیمانی امور نثار احمد کھوڑو نے بتایا کہ ماہی گیری کے لیے سمندر میں جانے والی کشتیوں کا کراچی فشریز ہاربر اتھارٹی سے کوئی رابطہ نہیں ہوتا ہے ۔ تاہم 70 فیصد کشتیوں کے مالکان نے اپنے طور پر 2 ۔

وے وی ایچ ایف کمیونیکیشن سسٹم نصب کرا لیا ہے ، جس سے وہ مختلف سرکاری اداروں سے رابطے میں رہتے ہیں ۔ گذشتہ سال 50 ریسکیو آپریشن ہوئے ۔ ابھی تک کوئی حادثہ رونما نہیں ہوا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ سی فوڈ کی برآمدات کو بہتر بنانے کیلیے متعدد اقدامات کیے گئے ہیں ۔ مچھلیوں اور ان کی مصنوعات کو صحت مند طریقے سے محفوظ کرنے اور معیار کو بہتر بنانے کے لیے ماہی گیری کی کشتیوں کو اپ گریڈ کیا گیا ہے ۔

(جاری ہے)

ماہی گیروں نے جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھایا ہے ، جس کے نتیجے میں یورپی یونین نے پاکستان سے سی فوڈ کی درآمد پر پابندی 2013 ء میں اٹھالی ہے ، جو 2007 ء میں عائد کی گئی ہے ۔ کراچی فش ہاربر کی بہتری اور اپ گریڈیشن کے لیے ایک ارب 43 کروڑ 80 لاکھ روپے کی اسکیم منظور کی گئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ممنوعہ جال کے استعمال کو روکنے کے لیے مناسب قانون سازی کی ضرورت ہے ۔ سینئر وزیر نے بتایا کہ سال 2013-14 میں ایک 56 ہزار ٹن مچھلی اور سی فوڈ برآمد کی گئی ، جس سے 367 ملین ڈالرز کی آمدنی ہوئی ۔

متعلقہ عنوان :