سرکاری اداروں کی 90 فیصد دستاویزات لاپتہ ہیں، 2013ء میں کابینہ سیکرٹریٹ کی مجلس نے پی آئی اے خسارے کو دیکھتے ہوئے نجکاری کی ہدایت کی ،چیئرمین نجکاری کمیشن محمد زبیر نے سینیٹ کی خصوصی کمیٹی برائے پی آئی اے کارکردگی کوبریفنگ

وی آئی پی فلائٹس پر بہت سی اشیاء لائی جاتی ہیں ، یہ سفر کرنے والوں کو نہیں ملتیں پی آئی اے میں مافیا بیٹھا ہوا ہے جو کرپشن خود کر کے ملازمین پر الزام لگاتا ہے ،، کنوینئر کمیٹی مشاہد اﷲ خان کا اظہار خیال

جمعرات 25 فروری 2016 21:17

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔25 فروری۔2016ء) چیئرمین نجکاری کمیشن محمد زبیر نے سینیٹ کی خصوصی کمیٹی برائے پی آئی اے کارکردگی کے اجلاس میں انکشاف کیا کہ سرکاری اداروں کے 90 فیصد دستاویزات لاپتہ ہیں، 2013ء میں کابینہ سیکرٹریٹ کی مجلس نے پی آئی اے خسارے کو دیکھتے ہوئے نجکاری کی ہدایت کی تھی، کنوینئر کمیٹی مشاہد اﷲ خان نے کہا کہ وی آئی پی فلائٹس پر بہت سی اشیاء لائی جاتی ہیں جو سفر کرنے والوں کو نہیں ملتیں، عملے کے ارکان اشیاء آپس میں بانٹ لیتے ہیں، حتیٰ کہ وزیراعظم کو بھی کچھ بھی نہیں دیا جاتا، پی آئی اے میں مافیا بیٹھا ہوا ہے جو کرپشن خود کر کے ملازمین پر الزام لگاتا ہے، اجلاس میں محمد زبیر اور سینیٹر کامل علی آغا کے درمیان تلخ کلامی ، کامل علی آغا نے محمد زبیر کو جھڑک دیا، محمد زبیر نے کہا کہ ہم نے بھی محنت سے یہ مقام حاصل کیا ہے، کمیٹی ممبر شیری رحمان نے کہا کہ پی آئی اے میں دیا جانے والا کھانا معیاری نہیں ہوتا، اپوزیشن کے کمیٹی اراکین نے پرانی بریفنگ دینے پر برہمی کا اظہار کیا۔

(جاری ہے)

جمعرات کو سینیٹ کی خصوصی کمیٹی برائے پی آئی اے کارکردگی کا اجلاس کنوینئر کمیٹی مشاہد اﷲ خان کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں پی آئی اے کارکردگی سمیت نجکاری بل کے حوالے سے بریفنگ دی گئی، پی آئی اے چیئرمین کمیٹی کو آگاہ کیا کہ پی آئی اے کا خسارہ اثاثوں سے زیادہ ہے، تیل کی قیمتوں پر ہونے والی کمی کی بچت کو فلائٹ آپریشن کیلئے ایڈجسٹ کیا گیا، پی آئی اے کے ہوٹلز کی پانچ سالہ آمدنی صرف 40 ملین ڈالر تھی۔

کمیٹی نے پی آئی اے کے پاکستان میں دفاتر کا مارکیٹ ریٹ کم لگانے پر برہمی کا اظہار کیا جو اعداد و شمار پی آئی اے کی جانب سے دیئے گئے ہیں وہ انتہائی کم ہیں۔ چیئرمین پی آئی اے نے تردید کرتے ہوئے کہا کہ ان عمارات کا ابھی تک مارکیٹ ریٹ نہیں لگایا گیا۔ سینیٹر سعید غنی نے کہا کہ میں نے سینیٹ میں سوال پوچھا تھااس کے جواب میں غلط اعداد و شمار کیوں دیئے گئے۔

چیئرمین نجکاری کمیشن نے کمیٹی کو بتایا کہ کسی بھی اثاثے کو مارکیٹ ریٹ سے کم پر نہیں بیچا جائے گا، پی آئی اے میں 26فیصد شیئرز دیئے جا رہے ہیں۔ کنوینئر کمیٹی مشاہد اﷲ خان نے کہا کہ میڈیا کو ایشو ادارے نے دیا ہے۔ کمیٹی رکن تاج محمد آفریدی نے کہا کہ پی ٹی سی ایل کو بھی 26فیصد پر دیا گیا تھا مگر اب 800ملین ڈالر بقایا ہیں۔ اپوزیشن کے کمیٹی اراکین نے کہا کہ پی آئی اے کی نجکاری کی جا رہی ہے اور نئی ایئر لائن کمپنی بنائی جا رہی ہے، پاکستان ایئرویز بنا کر پی آئی اے کو کھوکھلا کیا جا رہا ہے، ہمارے پیسوں سے نئی ایئرلائن بنائی جا رہی ہے، پتہ نہیں کیا سوچ کر ایوی ایشن ڈویژن پاکستان ایئرویز بنا رہا ہے۔

سیکرٹری ایوی ایشن نے کہا کہ یہ ایک منافع بخش ادارہ ہو گا اور پی آئی اے ایکٹ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہو گا۔