ایمنسٹی انٹرنیشنل کا بھارت میں عدم رواداری، اختلاف رائے رکھنے والوں کی گرفتاریوں

،انسانی حقوق کی پامالی، آزادئی رائے پرقدغن اور فرقہ واریت کے بڑھتے ہوئے رجحان پر تشویش کا اظہار

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 25 فروری 2016 12:27

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا بھارت میں عدم رواداری، اختلاف رائے رکھنے والوں ..

پیرس(ا ردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔25فروری۔2016ء) ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی سالانہ رپورٹ میں بھارت میں عدم رواداری، اختلاف رائے رکھنے والوں کی صوابدیدی گرفتاری، آزادئی رائے پرقدغن اور فرقہ واریت کے بڑھتے ہوئے رجحان پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔رپورٹ میں اس اعتبار سے اندرون بھارت اور بیرون بھارت میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اورعدم رواداری کی تشویشناک فضا پر بلند ہونے والی صدا کی باز گشت سنائی دے رہی ہے۔

رپورٹ میں وزیر اعظم نریندر مودی کی سربراہی میں قائم ہندو قوم پرست حکومت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ ملک میں ہونے والے فرقہ ورانہ فسادات کے سینکڑوں واقعات کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ فرقہ واریت کی فضا پر قابو پانے کی بجائے حکمران پارٹی اور بھارت کے اراکین پارلیمنٹ اپنی اشتعال انگیز تقاریر کے ذریعے ملک کی سب سے بڑی اقلیت ’مسلمانوں‘ اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کو حق بجانب ثابت کرنے کا کھلا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

ایمنسٹی کی رپورٹ میں اس بارے میں بھی خاص طور پر روشنی ڈالی گئی کہ نئی دہلی حکومت مسلسل سول سوسائٹی گروپوں کو ہراساں کر رہی ہے ان گروپوں کا قصور یہ ہے کہ یہ گزشتہ برسوں میں حکومتی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ایمنسٹی کی رپورٹ میں بھارت میں ماورائے قانون قتل، ذات پات اور نسلی امتیاز کے تحت انسانوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک اور آزادئی رائے کی خلاف ورزی جیسے انسانی حقوق کی سنگین پامالی پر تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق جنوری کے ماہ میں بھارت میں 3,200 سے زائد افراد کو ریاستی حکم پر حراست میں لیا گیا جبکہ ان پر نہ کوئی الزام عائد تھا اور نہ ہی ان پر مقدمہ چلایا گیا۔ایمنسٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کی ریاستی انتظامیہ نے ”انسداد دہشت گردی“ کے قوانین کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے انسانی حقوق کے سرگرم عناصر اور حکومت مخالف مظاہرین کو غیر قانونی طور پر گرفتار کیا ہے۔

ایک سال قبل مودی کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی پر خود اپنی طرف سے ”ہائپر نیشنل ازم“ یا ” انتہائی قوم پرستی“ کا برانڈ یا لیبل لگائے جانے کے بعد سے بھارتی حکومت پر مختلف سمت سے تنقید کی جاتی رہی ہے اور ایمنسٹی انٹر نیشنل کی 2016 ءکی سالانہ رپورٹ تنقید کے اسی سلسلے کی تازہ ترین کڑی ہے۔خود بھارت کے اندر سول سوسائٹی نے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والی ریاست میں امتیازی سلوک، نسل پرستی اور بنیادی انسانی حقوق کی پامالی پر احتجاج کا انوکھا مظاہرہ بھی کیا۔

درجنوں بھارتی مصنفین، مورخین اور فلمی صنعت کی نامور شخصیات نے ا±ن قومی اعزازات کو واپس کرتے ہوئے اپنے احتجاج کیا جو حکومت نے انہیں کبھی نہایت شان کے ساتھ دیا تھا۔ اس کے باوجود بھارت میں مظاہرے کرنے والے طلبا کی گرفتاریوں، تین لادین اسکالرز کا قتل اور گائے کے ذبیحہ کی افواہ پر ہونے والی ’موب کلنگ‘ یا ’ہجوم میں قتل‘ کے واقعات رونما ہوتے رہے۔

گزشتہ ہفتے دنیا بھر کی مختلف یونیورسٹیوں سے تعلق رکھنے والے 133 پروفیسروں نے بھارت میں حکومت کے خلاف اشتعال انگیزی کے الزام میں ایک طالبعلم کی گرفتاری پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسے بھارت کی موجودہ حکومت کی شدید نوعیت کی آمریت اور مخالفین کے لیے عدم رواداری کا ایک اور بڑا ثبوت قرار دیا تھا۔ ان اساتذہ کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کے یہ اقدامات بھارت کے تکثیریت اور روادارانہ رویے سے دیرینہ وابستگی کے دعووں کی نفی ہے۔ بھارتی حکومت پر تنقید کرنے والے 133 اسکالرز میں معروف لسانیات دان نوام چومسکی، نوبل انعام یافتہ ترک ناول نگار ا±رھان پاموک اور عالمی شہرت یافتہ ماہر اقتصادیات جیمز گالبریتھ بھی شامل ہیں۔

متعلقہ عنوان :