اپوزیشن کو ایک طے شدہ منصوبے کے تحت وزیراعظم کی موجودگی میں ایوان سے باہر رکھا گیا ، سید خورشید شاہ

اس طرح ایوان نہیں چلایا جا سکتا اگر اپوزیشن کی طاقت کو کم کیا گیا تو پارلیمنٹ کی طاقت کم ہو جائیگی ، قائد حزب اختلاف

منگل 23 فروری 2016 19:20

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔23 فروری۔2016ء) قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ اپوزیشن کو ایک طے شدہ منصوبے کے تحت وزیراعظم کی موجودگی میں ایوان سے باہر رکھا گیا اس طرح ایوان نہیں چلایا جا سکتا اگر اپوزیشن کی طاقت کو کم کیا گیا تو پارلیمنٹ کی طاقت کم ہو جائیگی ۔ منگل کو قومی اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی کے کرسی صدارت چھوڑنے کے بعد واک آؤٹ ختم کر کے ایوان میں واپسی پر سید خورشید شاہ نے کہا کہ ہم نے ڈپٹی سپیکر کے کل کے روئیے کیخلاف واک آؤٹ کیا وزیراعظم کے ایوان میں آنے پر اپوزیشن کا ایوان میں نہ ہونا وزیراعظم کیلئے لمحہ فکریہ ہونا چاہئے تھا اگر ان کی جگہ کوئی اور وزیراعظم ہوتا تو وہ خود اپوزیشن کو منا کر ایوان میں لے آتا حکومت نے ایک منصوبہ بندی کے تحت ڈپٹی سپیکر کو اس وقت تک کرسی صدارت پر بٹھایا جب تک وزیراعظم ایوان میں تھے اس کا مقصد یہ تھا کہ اپوزیشن وزیراعظم کے سامنے اپنا نکتہ نظر نہ رکھ سکے ۔

(جاری ہے)

یہ بھی روایت ہے کہ جب وزیراعظم ایوان میں ہو سپیکر خود اجلاس کی صدارت کرتے ہیں لیکن سپیکر اس بلڈنگ میں ہوتے ہوئے صدارت کی کرسی پر نہ آئے ۔ ہم ڈپٹی سپیکر کی موجودگی میں ایوان میں نہیں آئیں گے ۔ آج وزیراعظم کا ایوان میں ہونا اور اپوزیشن کا نہ ہونا ان کیلئے افسوسناک ہے ۔ اپوزیشن نے ہمیشہ مثبت رویے کے ساتھ سیاست کی ہے ۔ آج شاید وزیراعظم کو یہ بھی مشورہ دیا ہو گا کہ اچھا ہے اپوزیشن باہر رہے اگر اندر ہوئی تو اپوزیشن لیڈر بات کرینگے جس کا جواب وزیراعظم کو دینا پڑیگا ۔

حکومت نے خود صدر کے خطاب پر قرارداد تشکر کو کو متنازعہ بنا کر صدر مملکت کی حیثیت کو متنازعہ بنایا ہے ۔ ڈپٹی سپیکر نے ووٹ دے کر صورتحال کو متنازعہ بنایا ۔ ہم حکومت سے ایوان چلانے کے معاملے پر ہمیشہ تعاون کرتے ہیں اگر سپیکر خود مصروف تھے تو ڈپٹی سپیکر کی جگہ کسی اور کو کرسی صدارت بٹھا دیتے ہم بھی واپس آ جاتے اس طرح ایوان نہیں چلایا جا سکتا اگر اپوزیشن کی طاقت کو کم کیا گیا تو پارلیمنٹ کی طاقت بھی کم ہو جائیگی۔

پوائنٹ آف آرڈر پر کیپٹن (ر) صفدر نے کہا کہ خضدار میں پی آئی اے فلائٹس کا آغاز ہونا چاہئے مولانا قمر الدین کی قرارداد بہت مضبوط اور اہم ہے اس پر کمیٹی بنائی جائے ۔ اعجاز جاکھرانی نے کہا کہ مولانا قمر الدین کی قرارداد کی مخالفت حکومت نے کی اور اب حکومت کے ہی ایک ممبر اٹھ کر اس کی حمایت کر رہے ہیں یہ دوغلی پالیسی ہے ۔صاحبزادہ طارق اﷲ نے کہا کہ مولانا قمر الدین کی قرارداد کی مخالفت کا ہمیں بہت دکھ ہوا ہے حالانکہ وہ حکومتی اتحادی ہیں انہوں نے اپنے ہی اتحادی کی مخالفت کی جے آئی پلڈاٹ کے سروے کے مطابق سب سے جمہوری جماعت ہے باقی جماعتوں کو بھی جماعت اسلامی کی تقلید کرنا چاہئے ۔

صاحبزادہ یعقوب خان نے کہا کہ ہمیں تنقید برائے تنقید کی سیاست نہیں کرنی چاہئے ۔ صاحبزادہ یعقوب نے کہا کہ ہمیں تنقید برائے تنقید کی سیاست نہیں کرنی چاہئے اور عوامی مسائل کے حل کیلئے مل کر کوششیں کرنا ہونگی ۔ محمود خان اچکزئی نے کیپٹن (ر) صفدر کی نئی ریزولیشن لے آئیں خضدار میں پی آئی اے کی فلائٹس کے حوالے سے ہم اس کو سپورٹ کرینگے ۔

نعیمہ کشور نے کہا کہ مولانا قمر الدین کی اگر زیزولیشن پاس ہو جاتی تو کوئی قیامت نہ آجاتی۔ زاہد حامد نے کہا کہ کل ڈپٹی سپیکر نے دوبارہ گنتی کا کہا تھا میں اس پر مزید بات نہیں کرنا چاہتا ہم اپوزیشن کی قدر کرتے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ ہم اور اپوزیشن مل کر خود اسلوبی سے ایوان چلائیں آلودگی کی وجہ سے پاکستان کو 360 ارب سالانہ نقصانات ہو رہے ہیں ۔

عبد الرشید گوڈیل نے کہا کہ آج وزیراعظم کی آمد کی وجہ سے وزراء اور ممبران اسمبلی جو حکمتی جماعت سے ہیں وہ ایوان میں تشریف لائے میری استدعا ہے وزیراعظم کہ وہ ہر اجلاس میں ایک بار ضرور آئیں تاکہ وزراء اور ممبران اسی طرح آتے رہا کریں۔ ہماری ملک میں پانی پینے کا صاف حالت میں میسر نہیں حکومت نے اس حوالے کیا کام کیا ۔ کراچی سے حکومت کو کوئی لگاؤ نہیں لاہور اور راولپنڈی میں گندا پانی پینے کی وجہ سے ہیپاٹائٹس کا مرض بڑھ رہا ہے ۔

تھر کے بچے مر رہے ہیں وہاں کتنی سرمایہ کاری ہو رہی ہے ۔ سردار شفقت بلوچ نے کہا کہ تھر کول منصوبے کی بھی یہاں مخالفت کی جاتی ہے میں ممبران اسمبلی سے کہتا ہوں کہ آپ کالا باغ ڈیم بنانے کی حمایت کریں میں وزیراعظم سے کہہ کر تھرکول منصوبے کو کینسل کروا لینگے ۔ زاد حامد نے قرارداد پیش کی کہ پی آئی اے خضدار میں سول ایوی ایشن کے ساتھ مشاورت کر کے فلائٹس کا آغاز کرے قراردا د کو متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔ اجلاس کی کارروائی بدھ کی ساڑھے دس بجے تک کیلئے ملتوی کر دی گئی۔