قومی اسمبلی ‘اپوزیشن کا مرتضی جاوید عباسی کو متنازع قرار دیدیا ‘ڈپٹی سپیکر کی موجودگی میں ایوان میں بیٹھنے سے انکار ‘واک آؤٹ

منگل 23 فروری 2016 14:53

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔23 فروری۔2016ء) قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے ڈپٹی سپیکر مرتضی جاوید عباسی کو متنازع قرار دیتے ہوئے ان کی موجودگی میں ایوان میں بیٹھنے سے انکار کرتے ہوئے احتجاجا واک آؤٹ کیا ‘ اپوزیشن ارکان نے شیم شیم کے نعرے لگائے ، اپوزیشن کے واک آؤٹ کے دوران وزیراعظم محمد نواز شریف ایوان میں آئے اور تقریبا چالیس منٹ بعد ایوان میں بیٹھنے کے بعد واپس چلے گئے، وزیراعظم کی ایوان سے روانگی کے بعد پینل آف چیئرمین کے رکن محمود بشیر ورک نے جب اجلاس کی صدارت سنبھالی تو اپوزیشن ارکان ایوان میں واپس آگئے، اپوزیشن کے اس واک آؤٹ میں ایم کیو ایم نے حصہ نہ لیا تاہم وزیراعظم کی روانگی کے بعد ایم کیو ایم کے ارکان ان کی طرف سے کی گئی بھوک ہڑتال پر حکومتی توجہ نہ دیئے جانے پر ایوان سے واک آؤٹ کر گئے ۔

(جاری ہے)

اس سے قبل قومی اسمبلی کا اجلاس منگل کی صبح 11 بج کر پانچ منٹ پر ڈپٹی سپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی کی صدارت میں شروع ہوا، تلاوت قرآن پاک ونعت رسولﷺ کے بعد پیپلز پارٹی کے نواب یوسف تالپور نکتہ اعتراض پر کھڑے ہوگئے اور کہا کہ ڈپٹی سپیکر نے گزشتہ رات ہمارے ساتھ ناانصافی کی ہے ، اپوزیشن کے ارکان کی تعداد زیادہ تھی مگر اجلاس کے صدر نشین ڈپٹی سپیکر نے فیصلہ ہمارے خلاف دیا ہم اپوزیشن کے تمام ارکان نے مشاورت کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ جب تک ڈپٹی سپیکر معذرت نہیں کرتے ہم واک آؤٹ کرینگے، تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ اقلیت تو اکثریت پر ترجیح دی گئی ہے ڈپٹی سپیکر متنازعہ ہوچکے ہیں، لہٰذا ان کی صدارت میں ہونیوالے اجلاس کے دوران اپوزیشن ایوان میں نہیں بیٹھے گی، ڈپٹی سپیکر اس ایوان کا نگہبان ہے جس نے ایوان کو غیر جانبداری سے چلانا ہوتا ہے مگر گزشتہ روز ڈپٹی سپیکر کے رویئے نے اپنے آپ کو متنازعہ بنا لیا ہے اس پر اپوزیشن ارکان نے شیم شیم کے نعرے لگائے، شاہ محمود قریشی نے کہا کہ گزشتہ روز اپوزیشن کے چار ارکان زیادہ تھے، حکومت کی شکست کو ڈپٹی سپیکرنے اپنے ووٹ سے تبدیل کیا، پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ چار ارکان زیادہ ہونے کے باوجود ڈپٹی سپیکر نے ایسا رویہ اختیار کیا اس لئے ڈپٹی سپیکر متنازعہ ہوچکے ہیں لہٰذا ان کی سربراہی میں ہونیوالے اجلاس میں اپوزیشن ایوان میں نہیں بیٹھے گی۔

اس کے ساتھ ہی اپوزیشن ارکان ایوان سے واک آؤٹ کرنے لگے تو ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ جب ووٹنگ دوبارہ کرانے کی بات کی تھی، جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ سپیکر کو حکمت عملی سے ڈیل کرنا چاہئے تھا انہیں معاملہ موخر کر دینا چاہئے تھا اور متنازعہ نہیں بنانا چاہئے تھا، وفاقی وزیر زاہد حامد نے کہا کہ اگر اپوزیشن کو یقین تھا کہ ان کی عددی اکثریت ہے تو وہ دوبارہ گنتی کروا لیتے یہ زیادتی ہے کہ ایوان سے واک آؤٹ کیاہے، ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ میں نے دوبارہ گنتی کرانے کی بات کی تھی ، اپوزیشن نے واک آؤٹ کر کے زیادتی کی ہے ،شیریں مزاری کے کہنے پر دروازے بھی بند کردیئے گئے تھے، اس موقع پر اپوزیشن کے ارکان واک آؤ ٹ کر گئے تاہم ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کے دو منحرف ارکان گلزار خان اور مسرت زیب نے واک آؤٹ میں حصہ نہیں لیا، اپوزیشن کے واک آؤٹ کے بعد تحریک انصاف کے رائے حسن نواز نے کورم کی نشاندہی کردی ، گنتی پر مطلوبہ ارکان موجود نہ ہونے پر ڈپٹی سپیکر نے کورم پورا ہونے تک اجلاس کی کارروائی معطل کردی تاہم بیس منٹ بعد کورم پورا ہونے پر اجلاس دوبارہ شروع ہوگیا اور ایجنڈے کی کارروائی شروع ہوگئی، اس دوران وزیراعظم محمد نواز شریف ایوان میں آئے تو ارکان نے ڈیسک بجا کر ان کا استقبال کیا،گیا وزیراعظم تقریبا 40 منٹ ایوان میں موجود رہے ۔

وزیراعظم کی روانگی کے بعد ڈپٹی سپیکر بھی اجلاس کی صدارت چھوڑ کر چلے گئے اور کرسی صدارت پینل آف چیئرمین کے رکن محمود بشیر ورک نے سنبھال لی جس پر اپوزیشن ارکان ایوان میں واپس آگئے اس دوران ایم کیو ایم کے سید آصف حسنین نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ ہم کراچی میں چار روز بھوک ہڑتال پر بیٹھے رہے لیکن وفاقی یا صوبائی حکومت کا کوئی نمائندہ ہمارے پاس نہیں آیا اس پر ہم احتجاجا ایوان سے علامتی واک آؤٹ کرتے ہیں، اس کے بعد ایم کیو ایم کے ارکان ایوان سے باہر چلے گئے اس سے قبل وفاقی وزیر زاہد حامد اپوزیشن کو منانے کیلئے لابی میں گئے لیکن اپوزیشن ارکان نے ڈپٹی سپیکر کی موجودگی میں ایوان میں آنے سے انکار کردیا۔

متعلقہ عنوان :