80ممالک شام میں جنگجوؤں کی مددکررہے ہیں،بشارالاسد کادعویٰ

جنگ بندی کیلئے تیار ہیں مگراسے دہشت گردوں کو اپنی پوزیشن بہتر بنانے کیلئے استعمال نہیں کرنا چاہیے،ہسپانوی اخبار کو انٹرویو

پیر 22 فروری 2016 20:31

دمشق( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔22 فروری۔2016ء) شامی صدر بشارالاسد نے کہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ انھیں آج کے بعد دس سال تک شام کے نجات دہندہ کے طور پر یاد رکھا جائے۔انھوں نے اس خواہش کا اظہار ہسپانوی اخبار کے ساتھ انٹرویو میں کیا ۔انھوں نے کہا کہ وہ ایک شرط پر جنگ بندی کے لیے تیار ہیں اور وہ یہ کہ باغی اور ان کے بین الاقوامی مددگار ترکی وغیرہ اس کو دوبارہ منظم ہونے کے لیے ایک موقع کے طور پر استعمال نہ کریں۔

انھوں نے کہا کہ دس سال میں ،میں بطور صدر شام کو بچا سکتا ہوں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میں ان دس برسوں میں بھی صدر رہوں گا بلکہ میں صرف اپنے دس سالہ ویڑن کے بارے میں بات کررہا ہوں۔اگر شام محفوظ ومامون بن جاتا ہے اور میں ہی اس ملک کو بچاتا ہوں تو اب سے میرا یہ کام اور فرض ہے۔

(جاری ہے)

انھوں نے کہا کہ اگر شامی عوام مجھے اقتدار میں چاہتے ہیں تو میں رہوں گا۔

اگر وہ نہیں چاہتے تو میں کچھ بھی نہیں کرسکتا۔میرا مطلب ہے کہ میں اپنے ملک کی مدد نہیں کرسکتا ہوں۔اس لیے مجھے درست طریقے سے اقتدار چھوڑنا ہوگا۔انہوں نے کہاکہ وہ جنگ بندی کے لیے تیار ہیں لیکن اس کو دہشت گردوں کو اپنی پوزیشنوں کو بہتر بنانے کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔انھوں نے واضح کیا کہ جنگ بندی دوسرے ممالک اور خاص طور پر ترکی کو مزید ریکروٹس ،مزید دہشت گرد ،اسلحہ یا ان دہشت گردوں کے لیے کسی قسم کی لاجسٹیکل امداد کو بھیجنے سے روکنے کے لیے ہونی چاہیے۔

بشارالاسد کا کہنا تھا کہ ان کے روسی اور ایرانی اتحادیوں کی مدد نے شامی فورسز کی حالیہ بڑی کامیابیوں اور پیش قدمی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ہمیں اس مدد کی اشد ضرورت ہے اور اس کا سادہ سا جواز ہے کہ ان دہشت گروپوں کی اسّی سے زیادہ ممالک مختلف طریقوں سے مدد کررہے ہیں۔انھوں نے ہسپانوی روزنامے سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ ان میں سے بعض ممالک براہ راست رقوم ،لاجسٹیکل سپورٹ ، اسلحے اور بھرتی کے ذریعے ان گروپوں کی مدد کررہے ہیں۔بعض ممالک مختلف عالمی فورموں پر ان کی سیاسی مدد کررہے ہیں۔

متعلقہ عنوان :