Live Updates

مسلم لیگ (ن) داخلی جمہوریت کے لحاظ سے کمزور ترین سیاسی جماعت ، جماعت اسلامی سب سے زیادہ جمہوری قرار تحریک انصاف تیسرے ، عوامی نیشنل پارٹی چوتھے ،پیپلزپارٹی پانچویں، جے یو آئی (ف) اور ایم کیو ایم چھٹے نمبر پر رہیں

پلڈاٹ نے ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کی داخلی جمہوریت پر سالانہ رپورٹ جاری کر دی

پیر 22 فروری 2016 18:25

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔22 فروری۔2016ء ) پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹیو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپرنسی (پلڈاٹ )نے پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کی داخلی جمہوریت پر 2015کی سالانہ رپورٹ جاری کردی جس کے مطابق حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) داخلی جمہوریت کے لحاظ سے مسلسل دوسرے سال کمزور ترین اورجماعت اسلامی سب سے زیادہ جمہوری جماعت قرار پائی ،پاکستان تحریک انصاف تیسرے نمبر پررہی ، عوامی نیشنل پارٹی چوتھے ،پیپلزپارٹی پانچویں،جمعیت علماء اسلام (ف) اور ایم کیو ایم کا چھٹا نمبر ہے۔

تفصیلات کے مطابق پیرکو پلڈاٹ کی جانب سے پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کی داخلی جمہوریت کے حوالے سے جاری کی جانے والی سالانہ رپورٹ کے مطابق سیاسی جماعتوں کی داخلی جمہوریت کا مجموعی معیار 43فیصد سے کم ہو کر 2015میں 40فیصد رہ گیا، زیادہ تر جماعتیں اپنے قائدین کی مرہون منت ہیں ۔

(جاری ہے)

جماعتوں کی فیصلہ سازی والی تنظیمیں عمومی طور پر کمزور اور غیر موثر ہیں ، ان کے اجلاس شاذر ہی ہوتے ہیں اور اہم فیصلوں میں بہت کمزور کردار ادا کرتے ہیں ۔

پاکستان تحریک انصاف کے اگلے جماعتی انتخابات سیاسی جماعتوں کی داخلی جمہوریت کے لئے ایک اچھی اور بری مثال کی شکل میں فیصلہ کن ثابت ہو سکتے ہیں ۔داخلی جمہوریت کا جماعتوں کی عوامی مقبولیت پر اثر انداز نہ ہونا تشویشناک ہے ۔پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی داخلی جمہوریت کے دوسرے سال (2015) کے منظم جائزے کے مطابق جماعت اسلامی پاکستان کی سب سے زیادہ جمہوری جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے ۔

جبکہ پاکستان مسلم لیگ (نواز) ایک بار پھر سب سے کم جمہوری جماعت رہی ۔’ پلڈاٹ کی رپورٹ 2015‘‘ کے مطابق 8منتخب سیاسی جماعتوں کو 100میں سے مجموعی طور پر 40سکور ملا جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ سکور 2014کے مقابلے میں کم ہوا ہے جو 43تھا۔ اس طرح یہ بات سامنے آتی ہے پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی داخلی جمہوریت کی صورتحال جو گزشتہ سال بھی خاصی بہتر نہ تھی اس میں 2015میں مزید ابتری آئی ہے ۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 8سیاسی جماعتوں میں داخلی جمہوریت کے جائزے کے پلڈاٹ کے اس سکور کارڈ میں جماعت اسلامی کو 56فیصد،(پہلی پوزیشن)، نیشنل پارٹی کو 47فیصد (دوسرا نمبر)، پاکستان تحریک انصاف کو 44فیصد(تیسرا نمبر، عوامی نیشنل پارٹی کو 40فیصد (چوتھا نمبر، پاکستان پیپلز پارٹی کو36فیصد (پانچواں نمبر، جمعیت علماء اسلام (ف) اور متحدہ قومی موومنٹ کو 33فیصد(دونوں کا چھٹا نمبر اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کو 31فیصد سکور(ساتواں نمبر) ملا۔

ان 8 سیاسی جماعتوں کا سیاسی جماعتوں کی داخلی جمہوریت کیلئے پارٹی دستور کی جمہوریت نوعیت،باقاعدہ اور مسابقانہ پارٹی انتخابات، پارٹی کے اندرونی ڈھانچے کا موثر ہونا،اسمبلیوں اور مقامی حکومتوں کے انتخابات کیلئے پارٹی امیدواران کے انتخاب میں پارٹی کے مقامی رہنماؤں کا کردار، پارلیمانی جماعتوں کے باقاعدہ اجلاس،سالانہ عام اجلاس یا کنونشن کی روایت،موروثی سیاست کی حوصلہ شکنی،پارٹی قیادت کی باقاعدگی سے تبدیلی،فنڈنگ بنیاد کا وسیع ہونا اور پارٹی حسابات کی ساکھ،پارٹی کے اندر اختلاف رائے کی برداشت،فیصلہ سازی کا جمہوری عمل،پارٹی معاملات میں خواتین، نوجوانوں اور اقلیتوں کی شرکت کے وضع کردہ پیمانوں پر جائزہ لیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق سیاسی جماعتوں کی داخلی جمہوریت اور ان کی عوامی مقبولیت میں کوئی تعلق نہیں ہے، پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محسوس نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن)، ایم کیو ایم اور پاکستان پیپلز پارٹی مقبول جماعتیں ہیں اور ان کی داخلی جمہوریت کی کمزوری ان کی عوامی مقبولیت میں رکاوٹ نہیں ہے، دوسری طرف جماعت اسلامی اور نیشنل پارٹی سب سے زیادہ جمہوری جماعتیں ہیں لیکن ان کی عوامی مقبولیت خاصی کم ہے۔

پلڈاٹ کے صدر نے کہا کہ بطور ایک ادارہ جو پاکستان میں جمہوریت کی صورتحال سے متعلق معاملات پر باقاعدگی سے تحقیق کرتا ہے، اس کے نزدیک داخلی جمہوریت اور عوامی مقبولیت کا یہ عدم تعلی خاصا تشویشناک امر ہے۔ پلڈاٹ کی رائے ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی داخلی جمہوریت بظاہر ایک دلچسپ فیصلہ کن مراحل میں ہے، 2012-13ء میں اس کے پاٹری انتخابات ملکی تاریخ میں سب سے مسابقانہ اور منظم جماعتی انتخابات تھے لیکن یہ پارٹی کے اپنے اعتراف کے مطابق خامیوں سے بھرپور تھے۔

پلڈاٹ کے تجزیے کے مطابق 2016 میں ہونے والے اس کے آئندہ انتخابات نہ صرف پارٹی کی اپنی جمہوری ساکھ کا فیصلہ کریں گے بلکہ اس تجربے کی کامیابی یا ناکامی پاکستان میں دیگر جماعتوں کے داخلی پارٹی انتخابات کے مستقبل کے رجحان کا فیصلہ بھی کر سکتے ہیں۔ رپورٹ میں کہاگیا اس مجموعی سکور میں پارلیمنٹ میں پارٹی کا موقف طے کرنے میں پارلیمانی پارٹیوں کے کردار کے پیمانے کو سب سے زیادہ سکور ملا جو 49فیصد ہے، جماعتوں میں موروثی قیادت کی حوصلہ شکنی کو دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ 47فیصد سکور ملا، اس کے بعد اختلاف رائے کی برداشت کا سکور 46فیصد ہے، الیکشن کمیشن کے پاس سیاسی جماعتوں کے جمع کروائے گئے حسابات کے گوشواروں کی ساکھ اور آیا ان کی فنڈنگ کی بنیاد وسیع ہے کو سب سے کم سکور ملا جو 26فیصد ہے، تین پیمانے ایسے ہیں جنہیں اس کے بعد کمتر سکور ملا یعنی سیاسی جماعتوں میں اعلیٰ قیادت کی جمہوری تبدیلی، جماعتی انتخابات اور کمزور داخلی ڈھانچہ جیسے ایگزیکٹو کمیٹی، ان تمام کو 38فیصد سکور ملا۔

پلڈاٹ کی 2014کی رپورٹ میں بھی اسی طرح کے نتائج سامنے آئے تھے اور ان میں دو کمزور ترین پیمانے اعلیٰ پارٹی قیادت میں تبدیلی اور فنڈنگ کا وسیع البنیاد نہ ہونا اور آڈٹ شدہ حسابات کے گوشوارے تھے۔رپورٹ میں کہاگیا کہ بروقت انتخابات کے ذریعے قیادت کی باقاعدہ تبدیلی، شوریٰ اور مجلس عاملہ کے باقاعدہ اجلاس اور پارٹی میں موروثی قیادت کی عدم حوصلہ افزائی وہ عوامل ہیں جنہوں نے بظاہر جماعت اسلامی کو سب سے زیادہ جمہوری جماعت کے طور پر تسلیم کرنے میں کردار ادا کیا۔

علاوہ ازیں اکتوبر 2015 میں پارٹی کے دستور میں ایک تاریخی ترمیم کی گئی، جس کی رو سے پارٹی کی مجلس شوریٰ میں خواتین کیلئے 10 نشستیں مختص کی گئی ہیں، اگرچہ جماعت اسلامی ایک مخصوص نوعیت کی داخلی جمہوریت کی حامل ہے، جس میں پارٹی انتخابات میں کوئی امیدوار نہیں ہوتے اور انتخابی مہم ک یاجازت نہیں ہے، لیکن جائزہ کاروں نے پارٹی قواعد اور اس کی نظام کو پارٹی کو سب سے زیادہ جمہوری جماعت قرار دینے میں رکاوٹ نہیں سمجھا۔

سروے رپورٹ کے مطابق نیشنل پارٹی (جس کے موجودہ سربراہ میرحاصل خان بزنجو ہیں) 47فیصد کے مجموعی سکور کے ساتھ 2015ء میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ جمہوری جماعت رہی جو اس حوالے سے اہم پیش رفت ہے کہ 2014ء میں یہ جماعت چوتھے نمبر پر رہی تھی،2003 میں یہ جماعت قائم ہونے کے بعد پارٹی قیادت میں باقاعدگی سے ہونے والی تبدیلی اور 2015 میں کامیابی منعقدہ ہونے والے پارٹی کنونشنوں، جن میں چاروں صوبوں کے سربراہان کیلئے شفاف جماعتی انتخابات بھی منعقد ہوئے نیز موروثی قیادت کی علامات نہ ہونا بظاہروہ عوامل ہیں جنہوں نے نیشنل پارٹی کو دوسرے نمبر کی سب سے زیادہ جمہوری پارٹی بنایا۔

رپورٹ میں کہاگیا کہ دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ (ن) ایک بار پھر سب سے کم جمہوری پارٹی ثابت ہوئی، پارٹی اجلاسوں کا باقاعدگی سے یا باللک نہ ہونا ،مسابقانہ انتخابات کا فقدان اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قیام سے ایک ہی پاٹری قیادت کا ہونا وہ عوامل ہیں جو پاٹری کے جمہوری کردار کی کمزوری کا باعث ہیں،پاکستان مسلم لیگ (ن) کے بعد ایم کیو ایم اور جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) ہیں جو جائزہ لی جانے والی 8 جماعتوں میں دوسرے نمبر پر کمزور ترین جمہوری جماعتیں ہیں۔

رپورٹ کے مطابق سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کا معروضی اور سائنسی بنیادوں پر جائزہ لینے کی غرض سے پلڈاٹ کی تشکیل کردہ وسیع البنیاد سٹیئرنگ کمیٹی نے 12 پیمانوں پر مشتمل ایک فریم ورک وضع کیا، اس جائزے کیلئے آٹھ بڑی سیاسی جماعتوں کو چنا گیا، موجودہ قومی اسمبلی 2013-2018ء کی نشستوں کی زیادہ تر تعداد ان جماعتوں میں سے پانچ جماعتوں(پاکستان مسلم لیگ(نواز)، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف، جمعیت علماء اسلام(فضل الرحمان) اور ایم کیو ایم کے پاس ہے۔

تین دیگر جماعتوں کو یا تو بلوچستان (نیشنل پارٹی) اور خیبرپختونخوا) اے این پی) کی نمائندگی کیلئے منتخب کیا گیا یا پھر جماعت اسلامی کی شکل میں داخلی جمہوریت کے مخصوص طرز کو سمجھنے کیلئے منتخب کیا گیا، سیاسی جماعتوں سمیت مختلف ذرائع سے اعداد و شمار حاصل کرنے کے بعد تمام 12 پیمانوں کی بنیاد پر ان جماعتوں کے پروفائل تیار کئے گئے، پھر ان اعداد و شمار کی بنیاد پر جماعتوں کا مقداری جائزہ(سکورنگ ) لیا گیا۔

Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات