اگر راستے میں سرخ فیتہ رکاوٹ نہ ہو توملک میں اب بھی بہت ساکام کیا جا سکتا ہے ،ریلوے کا ماڈل باقی اداروں کو بھی دیکھنا چاہیے ‘ خواجہ سعد رفیق

پیر 22 فروری 2016 13:50

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔22 فروری۔2016ء) وفاقی وزیر ریلو ے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ اگر راستے میں سرخ فیتہ رکاوٹ نہ ہو توملک میں اب بھی بہت ساکام کیا جا سکتا ہے ،ریلوے کا ماڈل باقی اداروں کو بھی دیکھنا چاہیے ،یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ اگر محنت کش ،مینجمنٹ اور سیاسی لیڈر شپ مل جائے تو ناممکن کو ممکن بنایا جا سکتا ہے ،ہماری حکومت آنے سے قبل ریلوے میں موجود ایماندار افسران کو ”لہریں “گننے کے کام پر لگا دیا گیا تھا لیکن اب چور اچکوں کو اس کام پر لگا کر افسران کو محکمے کے اندر ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں جس کے نتائج بھی برآمد ہو رہے ہیں،اب ریلوے میں متوالوں اور جیالوں کی بھرتی نہیں ہوتی بلکہ میرٹ پر این ٹی ایس کے ذریعے بھرتیاں کی جارہی ہیں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے ریلوے ہیڈ کوارٹر میں مزدور یونین سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

(جاری ہے)

خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ریلوے کی ترقی میں ایک گینگ مین سے لے کر وزیر اعظم تک کی کاوشیں شامل ہیں۔ وزیر اعظم نے اپنا کردار ادا کیا ،انہوں نے ہمیں ہمیشہ سپورٹ مہیا کی اور ایسی سپورٹ جو اس سے پہلے نہیں ملی جو ہم کہتے ہیں وہ مہربانی کر کے مدد کرتے ہیں او رکر گزر تے ہیں اورہمارے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جاتا ہے ،ہماری بات کو سنا جاتا ہے اورہمارے راستے میں رکاوٹیں نہیں ہیں ۔

اگر راستے میں سرخ فیتہ رکاوٹ نہ ہو نہ ملک میں اب بھی بہت سے کام کر سکتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ریلوے کی حالت میں بہتری میں ایڈ منسٹریشن کا بھی بہت کردار ہے ۔ہماری حکومت سے پہلے محکمے کے دیانتدا ر اور ایماندار افسروں کو کارنر کر کے کھڈے لائن لگا دیا گیا تھا اوران کے پاس کلیدی کردار نہیں تھا بلکہ ان سے ”لہریں “ گننے کا کام لیا جارہا تھا لیکن آج چور اچکے لہریں گننے پر لگے ہوئے ہیں اور دیانتدار افسران بغیر کسی سفارش کے کلیدی عہدے پر ہیں اور میں ان میں سے کسی ایک کو بھی نہیں جانتا تھا ۔

انہوں نے کہا کہ اب ریلویز میں متوالوں او رجیالوں کی بھرتیاں نہیں ہوتیں ،ریلوے میں اب وہی بھرتی ہوتی ہے جس کی ضرورت ہوتی ہے اور نوجوان کیٹگریز کی مناسبت سے این ٹی ایس کے امتحان دے کر آتے ہیں ۔ہم بھی حلقوں ں والے ہیں ، ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ ووٹ لے کر آئے ہیں لیکن ہم نے اپنے حلقوں سے بھرتیاں نہیں کیں ،اپنے حلقے کے لوگوں کو یہ بات سمجھا دی ہے کہ جب کوئی ایم این اے یا وزیر بنتا ہے تو وہ صرف ایک حلقے کا نہیں وہ پورے ملک کا ہوتا ہے اگر وہ اپنا حلقہ بھرتی کرتا ہے وہ میری پارٹی کا ہو یا کسی پارٹی کا ملک و قوم کے ساتھ زیادتی کرتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ محکمے میں اصلاحات ہو رہی ہیں ،مال گاڑی چل پڑی ہے ،پہلے اس سے ایک یا ڈیڑھ ارب کماتے ہیں ا س سال صرف مال گاڑی سے 12ارب روپے کمائیں گے ۔اس سے پہلے مسافر ٹرینوں کی حالت سب کے سامنے تھی ،ابھی بھی حالت ٹھیک نہیں لیکن ہم اسے ٹھیک کر رہے ہیں ،گرین لائن ،قراقرم ایکسپریس چلائی ،بزنس ایکسپریس کا ریک تبدیل کیا اور اس میں اکانومی کلاس ڈالی ،مارچ کے وسط میں کراچی ایکسپریس آ جائے گی ،اس کے بعد موسی پاک کا نیا ریک بنا رہے ہیں اس کے بعد پاکستان ایکسپریس کی باری ہے ۔

اگلے سال چھ ٹرینیں اپ گریڈ کریں گے اس کا مطلب ہے کہ چھ ٹرینیں نہیں یہ 18سے 20ہوں گی ۔ہم نے سوچا کہ بجائے اس کے نئی ٹرینیں شروع کریں جو گندی مندی اوربد بودار ہیں پہلے ان کا معیار بہتر کریں ۔ مسافر بڑھتے جارہے ہیں ہم بوگیاں لگاتے جارہے ہیں۔ پارسل ایکسپریس چلائی ہے یہ اکیلی اکیلی بوگی چلتی تھی وہ باہر نکال کر وہاں مسافر کے ڈبے لگائے ،وہاں سے پچیس کروڑ کمائیں گے ، اگر ہفتے میں دو بار سال چلے گی تو سال کا 23کروڑ اور اگر روز روزانہ چلے گی تو سال کا 82کروڑ کمائے گی اور جون تک یہ روزانہ کی بنیاد پر آپریشن شروع کر دے گی ۔

انہوں نے کہا کہ ایک ایک چیز ٹھیک کر نی پڑ رہی ہے ،رننگ سٹاف کی لائف انشورنس ہوئی ہے۔ اگر مزدور محنت نہ کرتے تو 39کروڑ کا پیکج ہے کبھی نہ آتا ،اگلے سال محنت کریں گے تو اور ملے گا ، اگر کرو گے تو کھاؤ گے ۔ ہم کچھ خسارہ کم کر رہے ہیں ، اس کے ساتھ ملازمین کی فلاح و بہبود پر توجہ دے رہے ہیں اس کے ساتھ محکمے میں بھی سرمایہ کا ری کر رہے ہیں ۔

اگر ہم چاہتے تو اس سال خسارے کو 24ارب سے نیچے لے جا سکتے تھے لیکن ہم اپنے مزدووں، محکمے میں سرمایہ کاری اور خسارے کو کم کرنے کے لئے متوازن چل رہے ہیں۔ بزنس ایکسپریس چلی ہے اس کی اپ گریڈیشن پر 7کروڑ روپے لگانے پڑے ہیں اور ہم نے یہ رقم سرکار سے نہیں لی اپنی کمائی ہیں اور لگائے ہیں۔مارچ کے وسط میں کراچی ایکسپریس آئے گی اس پر بھی کروڑوں لگیں گے ۔

ہم چاہتے تو خسارہ کم لیتے لیکن ہم سرمایہ کاری بھی کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک بات ثابت ہو گئی ہے کہ ریلوے کا ماڈل باقی اداروں کو بھی دیکھنا چاہیے ۔اگر ہم چاہیں اگر محنت کش ،مینجمنٹ اور سیاسی لیڈر شپ مل جائے تو ہر نا ممکن کو ممکن بنایا جا سکتا ہے ۔ہیں باقی جہاں تک ریل کے پہیے کا سوال ہے تو وہ رواں دواں رہے گا ،اس میں کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے ۔

جب انصاف اور میرٹ ہو تو پھر ستے خیراں ہوتی ہیں جب ظلم اور زیادتی ہو تو پھر لو گ انتظار نہیں کرتے اوراگر انصاف کا دور دورہ ہو تو لوگ انصاف کا انتظار کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ مزدور مزید محنت کریں ،پیداواری یونٹس کو پوری استعداد سے کام کرنا چاہیے ۔ ہمیں اور کام چاہیے لیکن کیرج فیکٹری کی سپیڈ میری سپیڈ س یکم ہے اس کی استعداد ایک تہائی بھی نہیں ہے ۔ ہم ورکروں سے کہا ہے کہ وہ ڈبل شفٹ میں کام کریں ۔ میں بھی ڈبل شفٹ میں کام کرتا ہوں لیکن اس کا معاوضہ نہیں لیتا ہمیں ترقی کرنا ہے تو 16گھنٹے کام کرنا پڑے گا اور اس کے ساتھ تھکنا بھی نہیں ہے ۔

متعلقہ عنوان :