دہشت گردی کی حالیہ واقعات سے لگتا ہے شدت پسند پھر سے متحد ہونے لگے ہیں، امیر حیدر خان ہوتی

اگر تمام شدت پسند گروپوں کیخلاف کارروائیاں ہوئی ہوتیں تو حالات میں یقینی تبدیلی واقع ہو جاتی،صدر عوامی نیشنل پارٹی

جمعرات 18 فروری 2016 19:10

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔18 فروری۔2016ء) عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی نے مہمند ایجنسی اور خیبر ایجنسی کے مختلف علاقوں میں فورسز اور شہریوں پر ہونیوالے حملوں پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ حملوں کی بڑھتی تعداد نے عوام اور متعلقہ حلقوں کی تشویش میں اضافہ کر دیا ہے۔

اے این پی سیکرٹریٹ سے جاری کردہ مذمتی بیان میں اُنہوں نے مہمند ایجنسی میں خاصہ دار فورس پر کیے گئے دو حملوں میں نصف درجن سے زائد خاصہ داروں کی شہادت او رخیبر ایجنسی کے حملے پر دُکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ صورتحال ایک بار پھر بگڑتی جا رہی ہے اور محسوس یہ ہو رہا ہے جیسے حملہ آوروں ، انتہا پسندوں پر ریاست کی گرفت کمزور پڑنے لگی ہے۔

(جاری ہے)

اُنہوں نے کہا کہ اگر نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر عمل ہو رہا ہوتا اور تمام شدت پسند گروپوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائیاں کی جاتیں تو حالات میں یقینی تبدیلی آجاتی تاہم بوجوہ ایسا کرنے سے گریز کا راستہ اپنایا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شدت پسند نہ صرف یہ کہ پھر سے متحد ہونے لگے بلکہ ان کے حملوں کی شرح میں اضافہ بھی ہوا۔اے این پی کے صوبائی صدر نے مزید کہا کہ دہشتگردی اب بھی پاکستان اور خطے کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اس سے نہ تو تعلیمی ادارے محفوظ ہیں’ نہ فورسز اور نہ ہی عوام۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ سنجیدگی کیساتھ معاملات کا ازسر نو جائزہ لیا جائے اور ان کمزوریوں ، نقائص کو دور کیا جائے جو کہ نیشنل ایکشن پلان کے عمل درآمد میں رُکاوٹ ہیں اور جن کی وجہ سے دہشتگردی کا خاتمہ نہیں ہو رہا۔اُنہوں نے شہداء کے خاندانوں سے ہمدردی کرتے ہوئے کہا کہ اے این پی ان کے دُکھ میں برابر کی شریک ہے اور یقین دہانی کراتی ہے کہ خطے میں امن کے قیام کیلئے حسب سابق اپنی کوششیں جاری رکھے گی۔

متعلقہ عنوان :