باچاخان یونیورسٹی پر حملے سے چند روز قبل چار دہشتگرد افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوئے تھے ‘ پاکستانی حکام

مناسب نظام ہوتا تو کم از کم دو افراد کو گرفتار کیا جاسکتا تھا ‘ منصوبہ حملے سے قبل ہی ناکام ہو جاتا ‘ عہدیدار

جمعرات 18 فروری 2016 13:53

طورخم(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔18 فروری۔2016ء) پاکستانی حکام نے تصدیق کی ہے کہ چار سدہ کی باچا خان یونیورسٹی پر حملے سے کچھ دن قبل دو ‘ دو افراد کے گروپ کے ذریعے چار دہشت گرد طورخم کی سرحد کو عبور کرکے افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوئے تھے۔نجی ٹی وی کے مطابق سینئر سیکیورٹی عہدیدار کے مطابق اگر وہاں مناسب نظام موجود ہوتا تو کم از کم2 افراد کو گرفتار کیا جاسکتا تھا اور تمام منصوبہ حملے سے قبل ہی ناکام ہوجاتا۔

مذکورہ عہدیدار کے مطابق ہم ان کو روک سکتے تھے اور ان سے پوچھ سکتے تھے کہ ایک سواتی یا وزیرستانی لڑکا طورخم کو افغانستان سے کیوں عبور کررہا ہے اور ان کا مقصد کیا ہے؟انہوں نے کہاکہ المیہ یہ ہے کہ ہم افغانیوں کے داخلے کو روکنے کیلئے سخت سرحدی کنٹرول اور سخت سرحدی انتظام کا متاثر کن اعلان تو کرتے ہیں تاہم ہماری سرحدوں پر اس حوالے سے عملی انتظامات نہیں ہوتے۔

(جاری ہے)

ایک سیکیورٹی عہدیدار نے بتایا کہ ہرروز تقریبا 10 ہزار سے 15 ہزار افراد سرحد کراس کرتے ہیں ایک اور سیکیورٹی ایجنسی کے عہدیدار کے مطابق یہ تعداد 25 ہزار سے 28 ہزار کے درمیان ہے جن میں سے صرف چند کے پاس ہی مناسب ویزا یا پاسپورٹ ہوتا ہے۔خاصہ دار حکام کے مطابق کالعدم گروپ کی کارروائیوں اور نام نہاد امن کمیٹی کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ جب وہ پاکستان میں داخل ہوں یا یہاں سے افغانستان جائیں تو انھیں اپنے 'سابقہ ساتھیوں' کے نام بتانا ہوں گے، تاہم وہ کالعدم تنظیم کے سابق کارکنوں کی شناخت اور ان کی تعداد بتانے سے قاصر رہے۔

ایک اور سیکیورٹی ایجنسی سے تعلق رکھنے والے عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تجویز پیش کی کہ صرف فوج ہی سرحد کے انتظامات کی مناسب طریقے سے دیکھ بھال کرسکتی ہے۔

متعلقہ عنوان :