سانحہ چارسدہ یونیورسٹی کرپشن کے باعث پیش آیا‘ باچا خان یونیورسٹی پر حملے سے کچھ دن قبل 2،2 افراد کے گروپ کے ذریعے چار دہشت گرد طورخم کی سرحد کو عبور کرکے افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوئے‘ افغانیوں کے داخلے کو روکنے کے لیے سخت سرحدی کنٹرول اور سخت سرحدی انتظام کا متاثر کن اعلان تو کرتے ہیں، لیکن ہماری سرحدوں پر اس حوالے سے عملی انتظامات نہیں ہوتے۔سیکورٹی حکام کے حوالے سے ڈان نیوزکی چشم کشا رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 18 فروری 2016 12:17

سانحہ چارسدہ یونیورسٹی کرپشن کے باعث پیش آیا‘ باچا خان یونیورسٹی پر ..

اسلام آباد(ا ردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔18فروری۔2016ء)سیکیورٹی حکام نے تصدیق کی ہے کہ چار سدہ کی باچا خان یونیورسٹی پر حملے سے کچھ دن قبل 2،2 افراد کے گروپ کے ذریعے چار دہشت گرد طورخم کی سرحد کو عبور کرکے افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوئے تھے۔سینیئر سیکیورٹی عہدیدار کا کہنا تھا کہ اگر وہاں مناسب نظام موجود ہوتا تو کم سے کم 2 افراد کو گرفتار کیا جاسکتا تھا اور تمام منصوبہ حملے سے قبل ہی ناکام ہوجاتا۔

باچاخان یونیورسٹی پر حملے میں ملوث 4 میں سے 2 حملہ آوروں کی شناخت نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے بائیومیٹرک سسٹم کے ذریعے کرلی گئی ہے۔ ایک حملہ آور کا تعلق سوات اور دوسرے کا جنوبی وزیرستان کے علاقے ساروغا سے بتایا جاتا ہے اور دونوں کو شناختی کارڈ جاری کیے گئے تھے۔

(جاری ہے)

عہدیدار کا کہنا تھا ہم ان کو روک سکتے تھے اور ان سے پوچھ سکتے تھے کہ ایک سواتی یا وزیرستانی لڑکا طورخم کو افغانستان سے کیوں عبور کررہا ہے اور ان کا مقصد کیا ہے؟ان کا مزید کہنا تھا المیہ یہ ہے کہ ہم افغانیوں کے داخلے کو روکنے کے لیے سخت سرحدی کنٹرول اور سخت سرحدی انتظام کا متاثر کن اعلان تو کرتے ہیں، لیکن ہماری سرحدوں پر اس حوالے سے عملی انتظامات نہیں ہوتے۔

ڈان نیوزکے مطابق افغانستان سے پاکستان کے قبائلی علاقے میں داخل ہونے کے لیے طورخم، دو مستقل کراسنگ پوانئٹس میں سے ایک ہے جبکہ دوسرا پوائنٹ بلوچستان کے علاقے چمن کے افغان سرحدی علاقے میں واقع ہے۔طورخم بارڈر پر ہزاروں مقامی اور افغان شہری روزانہ معمولی یا بغیر چیکنگ کے دونوں جانب آتے اور جاتے ہیں۔خیال رہے کہ چار اداروں اور ایجنسیز کو روزانہ پاکستان میں داخل ہونے والے مشتبہ افراد پر نظر رکھنے کا کام سونپا گیا ہے تاہم کوئی بھی ان افراد کی صحیح تعداد نہیں بتاسکتا اور ان کے اعداد وشمار مفروضوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔

ایک سیکیورٹی عہدیدار نے بتایا کہ ہرروز تقریبا 10 ہزار سے 15 ہزار افراد سرحد کراس کرتے ہیں۔ ایک اور سیکیورٹی ایجنسی کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ یہ تعداد 25 ہزار سے 28 ہزار کے درمیان ہے، جن میں سے صرف چند کے پاس ہی مناسب ویزا یا پاسپورٹ ہوتا ہے۔خاصہ دار حکام کا کہنا تھا کہ کالعدم گروپ کی کارروائیوں اور نام نہاد امن کمیٹی کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ جب وہ پاکستان میں داخل ہوں یا یہاں سے افغانستان جائیں تو انھیں اپنے 'سابقہ ساتھیوں' کے نام بتانا ہوں گے، تاہم وہ کالعدم تنظیم کے سابق کارکنوں کی شناخت اور ان کی تعداد بتانے سے قاصر رہے۔

ایک اور سیکیورٹی ایجنسی سے تعلق رکھنے والے عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تجویز پیش کی کہ 'صرف فوج ہی سرحد کے انتظامات کی مناسب طریقے سے دیکھ بھال کرسکتی ہے۔رپورٹر نے یہ بھی دیکھا کہ افغانی شہری سرحدی محافظین کو جسمانی تلاشی اور سفری دستاویزات سے چھوٹ کے بدلے میں پیسوں کی پیش کرتے ہیں۔حکام نے تسلیم کیا ہے کہ یہ ان کے لیے آسان نہیں کہ وہ پاکستان میں داخل ہونے والے ہر افغانی کو چیک کریں یا ان سے سوالات پوچھے جائیں۔

عہدیدار نے بتایا کہ دونوں ممالک کے سرحدی علاقوں میں رہنے والے افراد مختلف وجوہات کی بنا پر روزانہ متعدد مرتبہ سرحد پار کرتے ہیں اور ہم ایسے افراد ہر ہاتھ ڈالنے سے گریز کرتے ہیں۔چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی پر ہونے والے دہشت گردی کے حملے کے چند روز بعد خیبر ایجنسی کی پولیٹیکل انتظامیہ نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان میں داخل ہونے والے افغانی شہریوں کا ریکارڈ ترتیب دینے کے لیے طور خم بارڈر پر رجسٹریشن کے 5 نئے پوائنٹس بنائے گئے ہیں۔

لیکن یہاں تعینات کیا جانے والا اسٹاف کم تربیت یافتہ اور اپنی ذمہ داریوں سے ناواقف ہے.انتظامیہ نے انھیں ایک پرفارما دیا ہے جسے انھوں نے دستی طریقے سے پ±ر کرنا ہے، جس میں سرحد عبور کرنے والے کا نام ، والد کا نام، وہ علاقہ جہاں سفر کرنا ہے، پاکستان میں ممکنہ منزل، پاکستان میں قیام کی مدت اور دورے کے مقصد وغیرہ کی تفصیلات کا اندراج کرنا ضروری ہے۔

خیال رہے کہ پولیٹیکل انتظامیہ نے گزشتہ سال نادرا کی مدد سے افغان شہریوں کے لیے ایک بار راہداری نظام (روٹ پرمٹ) بھی متعارف کروایا تھا۔ حکام کا کہنا تھا کہ اس کے ذریعے سے اب تک صرف 5،629 کارڈ ہی افغان شہریوں کو جاری کیے گئے ہیں، جبکہ دیگر 3،300 کارڈ ابھی تکمیل کے مرحلے سے گزر رہے ہیںمذکورہ سسٹم کے تحت ہمسایہ ممالک میں سفر کرنے والے تمام پاکستانیوں اور افغان شہریوں کو ایک مخصوص وقت کے لیے پولیٹیکل انتظامیہ کی جانب سے ایک کارڈ جاری کیا جاتا ہے جو افغان شہریوں کے پاکستان میں قیام کی مدت کے حوالے سے بھی رہنمائی کرتا ہے۔

سیکیورٹی حکام کاکہنا تھا کہ سب سے اہم مسئلہ غیرقانونی طور پر سرحد میں داخل ہونے والوں کا ہے جس میں بیشتر افغانی ہوتے ہیں تاہم کچھ دہشت گرد بھی بغیر چیکنگ کے سرحد عبور کرجاتے ہیں۔یہ مسئلہ قومی سلامتی اور حفاظت کا ہے جسے کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔