پرامن بلوچستان اور صوبے میں گڈ گورننس کا قیام صوبائی حکومت کی اولین ترجیح ہے، جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، اگر اس کے لیے غیر مقبول اور سخت فیصلے بھی کرنا پڑے تو کیے جائیں گے

وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اﷲ خان زہری کا صوبائی کابینہ کے پہلے اجلاس سے خطاب

بدھ 17 فروری 2016 22:47

کوئٹہ ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔17 فروری۔2016ء ) وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اﷲ خان زہری نے کہا ہے کہ پرامن بلوچستان اور صوبے میں گڈ گورننس کا قیام صوبائی حکومت کی اولین ترجیح ہے جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اور اگر اس کے لیے غیر مقبول اور سخت فیصلے بھی کرنا پڑے تو کئے جائیں گے، ان خیالات کا اظہار انہوں نے صوبائی کابینہ کے پہلے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا، کابینہ کو صوبے میں امن و امان کی صورتحال اور پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے حوالے سے بریفنگ دی گئی ، وزیراعلیٰ نے کابینہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ کابینہ گذشتہ کابینہ کا تسلسل ہے صرف وزیراعلیٰ تبدیل ہوا ہے اور مخلوط حکومت آئندہ اڑھائی سال بھی خوش اسلوبی اور ہم آہنگی کے ساتھ پورے کرے گی، انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کے درمیان اتحاد قائم رہے گا اور ہماری حتیٰ الوسع کوشش ہوگی کہ حکومتی امور قوائد و ضوابط اور افہام و تفہیم کے ساتھ نمٹائے جائیں، انہوں نے کہا کہ کابینہ اور بیوروکریسی لازم و ملزوم ہیں، لہذا بیوروکریسی اراکین کابینہ کے ساتھ مکمل تعاون کرے اور حکومتی امور تیزی سے نمٹانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے، انہوں نے کہا کہ گڈگورننس کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی قیادت اور بیوروکریسی میں مکمل ہم آہنگی ہو، اگر تمام لوگ اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کرینگے تو بہتر انداز میں مسائل حل ہونگے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ نہ تو امن و امان کے قیام پر کوئی سمجھوتہ کیا جائے گااور نا ہی ترقیاتی عمل میں کوئی رکاوٹ حائل ہونے دی جائے گی، آئین اور قانون کی پاسداری نہ کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی، وزیراعلیٰ نے کہا کہ جس طرح وہ خود کابینہ کے فیصلوں کے پابند ہیں اسی طرح بیوروکریسی بھی کابینہ کے فیصلوں پر عملدرآمد کرنے کی پابند ہے اور انہیں امید ہے کہ کابینہ کے فیصلوں کو ہر صورت عملی جامعہ پہنایا جائیگا۔

(جاری ہے)

کابینہ نے صوبائی لیبر پالیسی کے ڈرافٹ کی منظوری دی جوکہ حتمی منظوری کے لیے صوبائی اسمبلی میں پیش کیا جائیگا، چیف سیکریٹری بلوچستان سیف اﷲ چٹھہ نے اجلاس کو آگاہ کیا کہ 18ویں ترمیم کے بعد محکمہ محنت و افرادی قوت اور مزدوروں سے متعلق تمام امور صوبائی حکومت کا عنصر بن چکے ہیں، جس کے تحت اب تمام صوبے اپنی لیبر پالیسی بنا رہے ہیں، انہوں نے بتایا کہ ڈرافٹ لیبر پالیسی میں مزدوروں کے تمام مسائل بشمول خواتین کے مسائل کو شامل کیا گیا ہے اور زرعی ورکرز اور ماہی گیروں کے مسائل لیبر پالیسی کا حصہ ہیں، صوبائی کابینہ نے بلوچستان طفلانہ سیگریٹ نوشی آرڈیننس 1959 کی منسوخی کی منظوری بھی دی، کیونکہ یہ آرڈیننس ممانعت اور بچاؤ تمباکو نوشی صحت آرڈیننس 2002 سے متصادم تھا، صوبائی کابینہ نے بلوچستان کے سینما گھروں میں سیگریٹ نوشی کی ممانعت سے متعلقہ بل مجریہ 1940 کو کالعدم قرار دینے اور اس کی جگہ ممانعت تمباکو نوشی دوبارہ نفاذ ایکٹ 2014 صوبائی اسمبلی میں پیش کرنے کی منظوری بھی دی ، صوبائی کابینہ نے شیشہ کے استعمال پر پابندی کا بل بھی منظور کر لیا جو حتمی منظوری کے لیے صوبائی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا اس بل کے تحت کوئی بھی فرد انفرادی یا اجتماعی طور پر شیشہ بنانے، بیچنے، خریدنے ،ذخیرہ و استعمال کرنے یا درآمد کرنے میں شامل نہیں ہوگا اور اس ایکٹ کے تحت اس طرح کا کوئی بھی کام جرم تصور ہوگا اور ناقابل ضمانت ہوگا، امن و امان کے حوالے سے اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے سیکریٹری داخلہ نے بتایا کہ حکومتی کوششوں و اقدامات اور پولیس ، لیویز کی استعداد کار میں اضافے اور ایف سی کی معاونت سے صوبے میں عمومی جرائم، فرقہ وارانہ تشدد اور دہشت گردی میں نمایاں کمی رونما ہوئی ہے، اس حوالے سے 2010سے فروری 2016 تک موازنہ بھی پیش کیا گیا جس میں بتایا گیا کہ واپڈا، سوئی گیس اور ریلوے تنصیبات پر حملوں، بم دھماکوں، راکٹ فائرنگ اور اغواء برائے تاوان جیسے سنگین جرائم کے ساتھ ساتھ قومی شاہراہوں پر ڈکیتی، عمومی جرائم ، قتل ، کار اورموٹر سائیکل چھیننے کی وارداتوں کا گراف بہت نیچے آگیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کوئٹہ سیف سٹی پروجیکٹ پر عملدرآمد سے سنگین اور عمومی جرائم میں مزید کمی آئے گی، انہوں نے بتایا کہ اغواء برائے تاوان کی کاروائیوں میں ملوث گروہوں کا خاتمہ کر دیا گیا ہے، سیکریٹری داخلہ نے مسنگ پرسن کے حوالے سے بتایا کہ اس ضمن میں قائم کمیشن کے پاس کل 312کیس رپورٹ ہوئے، جن میں 120افراد کا سراغ لگایا گیا جبکہ 62کیس غیر متعلقہ ثابت ہوئے، اس طرح اب تک صرف 130 افراد لاپتہ ہیں، جبکہ بعض عناصر اس تعداد کو غیر حقیقی طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کرتے رہے ہیں ، ان لاپتہ افراد میں چند وہ لوگ بھی شامل ہیں جو جرائم میں ملوث اور اشتہاری قرار دئیے گئے ہیں، اجلاس کو کرمنل جسسٹس سسٹم کی بہتری سے متعلق امور کے بارے میں بھی آگاہ کیا گیا، اجلاس میں اس حوالے سے مجوزہ ترامیم کے لیے قائم کابینہ کمیٹی کے اراکین میں اضافے کی منظوری دی گئی، سیکریٹری داخلہ نے اجلاس کو انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز اور قانون نافذ کرنے والے متعلقہ اداروں کے درمیان معلومات کے تبادلے ، ضلع کی سطح پر قائم انٹر فیوزن سیل کے قیام اور اس حوالے سے حاصل ہونے والی کامیابیوں کے بارے میں تفصیلات سے بھی آگاہ کیا اور بتایا کہ اب تک 2570آئی بی اوز کئے گئے ہیں، وزیراعلیٰ نے اس حوالے سے ہونے والی پیش رفت کو سراہا، اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ نفرت انگیز مواد پر مشتمل تقاریر ، کتب اور سی ڈیزکے خلاف کاروائی کو تیز کیا جائیگا، اجلاس کو پر امن بلوچستان پالیسی پر ہونے والی پیش رفت سے بھی آگاہ کیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ اس پالیسی کا ازسرجائزہ لے کر اسے مزید جامع بنایا جائے گا۔

اجلاس میں تعلیمی اداروں کی سیکورٹی سے متعلق امور کا بھی جائزہ لیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں کیمپس فورس تشکیل دی جائے گی جس میں فورسز سے ریٹائرڈ اہلکاروں کو کنٹریکٹ کی بنیاد پر بھرتی کیا جائیگا، اجلاس کو بتایا گیا کہ صوبے کی یونیورسٹیوں ، کالجز، ریذیڈنشل کالجز اور کیڈٹ کالجز میں سیکورٹی ٹاورز کی تعمیر کا کام تیزی سے جاری ہے، جنہیں اس ماہ کے آخر تک مکمل کر لیا جائیگا۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ نجی تعلیمی اداروں کو بھی سیکورٹی فورسز بنانے کا پابند کیا جائیگا اور خلاف ورزی کی صورت میں ان کے خلاف کاروائی کی جائے گی، اجلاس کو بتایا گیا کہ نجی سکولوں کی سیکورٹی کی ایس او پی بنا کر دے دی گئی ہے، اجلاس میں تعلیمی اداروں کے ہاسٹل میں رہائش پذیر غیر متعلقہ افراد کے خلاف فوری کاروائی کا آغاز کر کے ان سے ہاسٹل خالی کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔

اجلاس میں سکول لگنے اور چھٹی کے اوقات کے دوران سیکورٹی اداروں کے گشت میں اضافے کی منظوری بھی دی گئی، اجلاس کو جیلوں کی سیکورٹی ، افغان مہاجرین کی واپسی، دہشت گردوں کو ہونے والی فنڈنگ کی روک تھام اور دہشت گردی کی کاروائیوں میں شہید ہونے والے شہریوں کے لواحقین کو معاوضے کی ادائیگی سے متعلق امور پر بھی بریفنگ دی گئی، اجلاس میں شہر میں کالعدم تنظیموں کی جانب سے جھنڈے لگانے اور وال چاکنگ کے خلاف بھی بھرپور کاروائی کا فیصلہ کیا گیا۔

ایڈیشنل چیف سیکریٹری منصوبہ بندی و ترقیات نصیب اﷲ خان بازئی نے اجلاس کو ترقیاتی پروگرام کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ رواں مالی سال کے ترقیاتی بجٹ کا حجم تقریباً 54ارب روپے ہے جس میں 2250 منصوبے شامل ہیں جن میں 1310نئے اور اور 940جاری منصوبے شامل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اب تک پی اینڈ ڈی سے 38ارب 74کروڑ روپے سے زائد فنڈز جاری کئے جا چکے ہیں، اس طرح منصوبوں کی منظوری اور فنڈز کے اجراء کا تناسب تقریباً 76فیصد ہے جو گذشتہ مالی سال سے 20فیصد زیادہ ہے، انہوں نے بتایا کہ پی اینڈ ڈی نے اب تک 17ارب روپے سے زائد منصوبوں کی اجازت دی ہے جبکہ محکمہ خزانہ سے ان منصوبوں کے لیے اب تک 15ارب روپے سے زائد فنڈز کا اجراء ہوا ہے، اسی طرح نئے منصوبوں کے لیے پی اینڈ ڈی نے 21ارب روپے سے زائد کی اجازت دی ہے جبکہ محکمہ خزانہ نے اب تک 19ارب روپے کا اجراء کر دیا ہے، وفاقی پی ایس ڈی پی میں شامل بلوچستان کے جاری اور نئے منصوبوں کی پیش رفت کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ 101جاری منصوبوں کے لیے 30ارب 90کروڑ روپے اور 38نئے منصوبوں کے لیے 13ارب 40کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔

اس طرح منصوبوں کے لیے مجموعی طور پر 44ارب 45 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں، ان میں سے 42منصوبوں پر صوبائی حکومت اور 97 منصوبوں پر وفاقی ادارے عملدرآمد کر رہے ہیں اور ان منصو بوں کے لیے جنوری 2016تک 47فیصد فنڈز کا اجراء ہو چکا ہے جو گذشتہ مالی سال کی نسبت زیادہ ہے، اجلاس میں ترقیاتی پروگرام کے تحت جاری منصوبوں پر پیشرفت پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات کی کارکردگی کو سراہا گیا۔

اجلاس میں بی ڈی اے کے ملازمین کی تنخواہوں کی بندش کے حوالے سے بھی بات چیت کی گئی، اجلاس کو بتایا گیا کہ ملازمین کی تنخواہوں کا اجراء کر دیا گیا جبکہ ان ملازمین کی مستقلی کے لیے کمیٹی قائم کی گئی ہے، جس کی سفارشات کی روشنی میں اقدامات کئے جائیں گے، اجلاس میں مختلف محکموں میں خالی آسامیوں پر بھرتی کا جائزہ بھی لیا گیا اور متعلقہ محکموں کو ہدایت کی گئی کہ بھرتیاں صرف اور صرف اہلیت اور میرٹ کی بنیاد پر کی جائیں تاکہ حقداروں کو ان کا حق مل سکے۔

اجلاس میں زرعی ٹیوب ویلوں کی سولر انرجی پر منتقلی سے متعلق امور کا جائزہ بھی لیا گیا، قبل ازیں کابینہ کے اجلاس میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں شہید ہونے والے شہریوں اور سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں کے لیے دعائے مغفرت کی گئی۔

متعلقہ عنوان :