وزیر اعظم کا بیان اور اپوزیشن کا شورو غل ، پنجاب اسمبلی کے رولز میں ترامیم ، اراکین نے اپنے ہاتھ خود ’کاٹ‘ لئے

Zeeshan Haider ذیشان حیدر بدھ 17 فروری 2016 20:43

لاہور ( اُردو پوائنٹ تازہ ترین ۔۔ آئی پی اے ۔۔ 17 فروری۔2015ء ) وزیر اعظم کیخلاف شور و غل،نعرہ بازی اور اپوزیشن کے واک آؤٹ کے دوران پنجاب اسمبلی کے ایوان نے قواعد انضباط کار صوبائی اسمبلی 1997ء میں ترامیم منظور کر لی گئی ہیں جن کے مطابق پارلیمانی سال کے آغاز سے قبل اجلاسوں کا کیلنڈر جاری کیا جائے گاجبکہ اجلاس کے آخر میں ’’ زیرو آور ‘‘ کے نام سے ایک مخصوص نشست ہو گی جس میں کسی اہم عوامی مسئلے کو اجاگر کیا جا سکے گا لیکن کوئی رکن ایک سے زائد تحریک التوائے پیش نہیں کر سکیں گے اپوزیشن کی غیر موجودگی میں ترمیمی مسودہ قانون کینال اینڈ ڈرینج 2015 اور مسودہ قانون اوکاڑہ یونیورسٹی 2015کی منظوری دی گئی جبکہ مسودہ قانون ( ترمیم ) قیام امن عامہ اور مسودہ قانون ( تیسری ترمیم ) مقامی حکومت ایوان میں پیش کئے گئے ،کینال اینڈ ڈرینج ایکٹ 1873ء میں ترامیم کا بل منظور ہونے سے پانی چوری کو قابل گرفت اور ناقابل ضمانت جرم بنا دیا گیا ، پانی چوری ثابت ہونے کی صورت میں مجرم کو کینال اینڈ ڈرینج ایکٹ کی دفعہ 70 کے تحت ایک سال قید یا 15ہزار روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکیں گی، قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید کووزیر اعظم کے نیب سے متعلق دئیے گئے بیان کو واپس لینے کے مطالبے پرمبنی قرارداد پیش کرنے کی اجازت نہ مل سکی ۔

(جاری ہے)

سپیکر رانا محمد اقبال کی زیر صدارت اجلاس میں سرکاری کارروائی کے دوران وزیر قانون و پارلیمانی امور رانا ثنا اﷲ خان نے قواعد انضباط کار صوبائی اسمبلی پنجاب 1997میں میں ترامیم ایوان میں پیش کیں ۔ نئے رولز کے مطابق قائد حزب اختلاف کوتعینات اور اس کی برطرفی کے اختیارات مشروط طور پر اسپیکر کو دئیے گئے ۔ اپوزیشن کے اکثریتی اراکین اگر قائد حزب اختلاف کے خلاف تحریری طور پر لکھ کر دیدیتے ہیں تو اسپیکر کو اختیار حاصل ہوگا کہ وہ اپوزیشن لیڈر کو برطرف کر دے اور اپوزیشن کی اکثریت کاحمایت یافتہ نیا قائد حزب اختلاف تعینات کر دے ۔

رولز میں اس بات کی بھی منظوری دی گئی کہ ہر پارلیمانی سال کے آغاز پر حکومت سپیکر کو اسمبلی کے اجلاسوں کا کیلنڈر فراہم کر یگی اور اس کیلنڈر کے مطابق ہی دی گئی تواریخ کے مطابق اجلاس بلائے جائیں گے۔ تاہم گورنر کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ کیلنڈر پر دی گئی تاریخ کے علاوہ بھی کسی وقت بھی اجلاس بلا سکے گا۔ سیکرٹری اسمبلی تمام اراکین میں یہ کیلنڈر تقسیم کر یگا۔

ہر سال اسمبلی کے کم از کم تین اجلاس ہوں گے اور اسمبلی کے ایک اجلاس کی آخری نشست اور اگلے اجلاس کی پہلی نشست کے لئے مقرر کی گئی تاریخ کے درمیان ایک سو بیس یوم سے زائد کا وقفہ نہ ہوگا۔ اسمبلی ہر پارلیمانی سال میں کم از کم ایک سو ایام کار میں اجلاس منعقد کر یگی ۔کوئی رکن کسی نشست کے دوران ایک سے زائد تحریک التوائے کار پیش نہیں کرے گا لیکن اس شرظ کا پہلی نشست میں پیش کردہ کسی ایسی تحریک پر اطلاق نہ ہوگا جو متعلقہ وزیر یا پارلیمانی سیکرٹری کی درخواست پر جواب دینے کے لئے زیر التواء رکھی گئی ہو ۔

نئے رولز میں ’’ زیرو آور ‘‘ کا بھی اضافہ کیا گیا جس کا مطلب کہ پنجاب اسمبلی کے آخری آدھے گھنٹے کو حکومت سے متعلق اور اسمبلی کی مداخلت کے متقاضی عوامی اہمیت کے فوری نوعیت کے معاملات نمٹانے کی غرض سے ’’ زیرو آور کے لئے طور پر استعمال کیا جائے گا ۔ایگر دو زاید زائد اراکین کی جانب سے زیرو آورز کے لئے دو یا زائد نوٹس وصول ہوتے ہیں تو سپیکر ایسی ترتیب کا فیصلہ کرے گا جس میں ایسے نوٹسز کو زیر بحث لایا جائے گا ۔

زیرو آور کے لئے مذکور شرط کو پورا نہ کرنے کی صورت میں سپیکر مذکورہ نوٹس کو نا قابل قبول قرار دینے سے پہلے رکن کو ذاتی شنوائی کا موقع فراہم کر سکتا ہے ۔ معاملے کو پیش کرتے ہوئے رکن پانچ منٹ سے زائد بات نہیں کرے گا۔صوبائی وزیر قانون و پارلیمانی امور رانا ثنا اﷲ خان نے ایوان میں بتایا کہ اسمبلی رولز میں مجموعی طو رپر 24ترامیم کی گئی ہیں جن میں 19مکمل جبکہ پانچ جزوی طور پر ہیں جو ترامیم باقی رہ گئی ہیں ان پر متعلقہ کمیٹی غور وخوض کر رہی ہے ۔

اس دوران قائد حزب اختلاف نے مطالبہ کیا کہ قائمہ کمیٹیوں کو با اختیار بنانے کے لئے سو موٹو ایکشن لینے کا اختیار دیا جائے ۔ اس سے نہ صرف حکومت بلکہ ایوان کی عزت میں بھی اضافہ ہوگا ۔ جس پر رانا ثنا اﷲ خان نے کہا کہ سو موٹو اختیار کا تجربہ قومی اسمبلی میں کیا جا چکا ہے اس لئے جو طریقہ پہلے سے موجود ہے وہی ٹھیک ہے اور قائمہ کمیٹیوں کوا پنے اجلاس بلانے کے لئے ایوان سے اجازت لینا ضرور ی ہے ۔

رولز کی منظوری کے دوران اپوزیشن خاموشی سے غیر اعلانیہ سے واک آؤٹ کر گئی -اجلاس میں وزیر قانون رانا ثنا اﷲ نے مسودہ قانون ( ترمیم ) کینال اینڈ ڈرینج 2015اور مسودہ قانون اوکاڑہ یونیورسٹی 2015ایوان میں پیش کئے جنہیں اپوزیشن کی عدم موجودگی میں منظور کر لیا گیا۔ اپوزیشن کی ایوان میں عدم موجودگی کے باعث ان کی تینوں ترامیم مسترد کر دی گئیں۔

پنجاب اسمبلی سے کینال اینڈ ڈرینج ایکٹ 1873ء میں ترامیم کا بل منظور ہونے سے پانی چوری کو قابل گرفت اور ناقابل ضمانت جرم بنا دیا گیا ہے۔ پانی چوری ثابت ہونے کی صورت میں مجرم کو کینال اینڈ ڈرینج ایکٹ کی دفعہ 70 کے تحت ایک سال قید یا 15ہزار روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکیں گی۔اسی طرح نہری تنصیبات بشمول موگہ جات کو ہونے والے نقصانات کی پوری رقم بھی وصول کی جائے گی۔

ترامیمی بل کی موجودگی میں آبیانہ نادہندگان کے خلاف بھی سخت قانونی کاروائی کی جا سکے گی ۔ترامیمی بل کی منظوری کے بعد آبیانہ کی رقم ادا نہ کرنے والے افراد کو 3 ماہ تک قید یا 3 ہزار روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں سنائی جا سکیں گی جبکہ آبیانہ اور تاوان کی پوری رقم بھی وصول کی جا ئے گی۔ علاوہ ازیں آبیانہ نا دہندگان کے نام وارہ بندی سے بھی خارج کر دیئے جائیں گے ۔

مذکورہ سزاؤں کے خلاف اپیل سننے کا اختیار سپرنٹنڈنگ کینال آفیسر کو دیا گیا ہے۔وزیر قانون نے مسودہ قانون ( ترمیم ) قیام امن عامہ پنجاب 2015اور مسودہ قانون ( تیسری ترمیم ) مقامی حکومت پنجاب 2015پیش کئے جنہیں اسپیکر نے متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کے سپرد کرتے ہوئے دو ماہ میں رپورٹ ایوان میں پیش کرنے کی ہدایت کی ۔سرکاری کارروائی کے دوران پی ٹی آئی کے آصف محمود نے کورم کی نشاندہی کی اور کورم پورا نہ ہونے پر سپیکر نے پانچ منٹ کے لئے گھنٹیاں بجانے کی ہدایت کی تاہم اس دوران حکومت نے کورم پورا کر لیا اور اجلاس کی کارروائی کا دوبارہ آغاز کر دیا گیا۔

قبل ازیں وقفہ سوالات کے دوران صوبائی وزیر بہبود آباد ی بیگم ذکیہ شاہنواز نے حکومتی رکن میاں طاہر کے سوال کے جواب میں کہا کہ تین سال قبل محکمے کو کوئی فنڈز نہیں ملتے تھے بلکہ ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی بھی مشکل ہو تی تھی لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے ۔ فنڈز مل رہے اور مسنگ سہولیات کو مکمل کیا جارہا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے پاس کل 117ایمبولینسز ہیں جو پہلے خراب تھیں لیکن اب انہیں مرمت کر کے آپریشنل کیا جارہا ہے ۔

چھ موبائل سروس یونٹ تھے جو آپریشنل نہیں تھے انہیں بھی فنڈز کی دستیابی کے بعد آپریشنل کردیا گیا ہے ۔ ڈاکٹر وسیم اختر کے سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری برائے بیت المال الیاس انصاری نے کہا کہ اس وقت بیت المال پنجاب کے سماجی بہبود و بیت المال پنجاب کے تحت 7516این جی اوز رجسٹرڈ ہیں جن کا باقاعدہ آڈٹ کرایا جاتا ہے ۔ اگر کسی رکن کو کسی این جی او پر اعتراض ہے تو اس کی نشاندہی کرے اس کا دوبارہ بھی آڈٹ کیا جا سکتا ہے اور اس کے خلاف کارروائی بھی کی جا سکتی ہے۔

طارق محمود باجوہ کے سوال کے جواب میں صوبائی وزیر نے کہا کہ ضلع ننکانہ میں بہبود آبادی کے 21فلاحی مرکز ہیں ان مراکز میں عوام کے لئے خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق آگاہی پروگرام کی سر گرمیاں کی جا تی ہیں۔ قبل ازیں قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید نے وزیر اعظم نواز شریف کے نیب سے متعلق بیان کے حوالے سے کہا کہ میں نے پنجاب اسمبلی سیکرٹریٹ میں قرارداد جمع کر ادی ہے اسے آؤٹ آف ٹرن پیش کرنے کی اجازت دی جائے ۔

انہوں نے کہا کہ کرپشن کے ناسور نے نظام کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے اور وزیر اعظم کرپشن کرنے والوں کی ہی حمایت کر رہے ہیں۔و زیر اعظم کی جانب سے نیب کے خلاف ا س طرح کا بیان اس ادارے کی کارروائیاں روکنے کے مترادف ہے ان کے اس بیان پر دنیا بھر میں پاکسان کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے ۔ وزیر اعظم کے اس بیان سے اس تاثر کو تقویت ملی ہے کہ موجودہ حکومت کرپشن کے خاتمے کے لئے سنجیدہ نہیں ہے اور خود بھی کرپشن میں ملوث ہے اسی لئے ہی حکومت کے اپنے ہاتھ نیب کے خلاف بڑھ رہے ہیں۔

پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن رکن اسمبلی میاں اسلم اقبال نے نقطہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ پنجاب حکومت سرکاری سکولوں کی سکیورٹی انتظامات ٹھیک کیے بغیر نجی سکولوں کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر ایف آئی آر درج کروا رہی ہے ۔پنجاب حکومت نے سرکاری سکولوں کی سکیورٹی کے لئے 3ارب 21کروڑ روپے مختص کیے ہیں لیکن اس کے باوجود کچھ سرکاری سکول ایسے بھی ہیں جن کی چاردواری نہیں ، ان کی سکیورٹی انتظامات کیے بغیر نجی سکولوں کے خلاف ظالمانہ سلوک روا رکھا جا رہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت پہلے سرکاری سکولوں کو سکیورٹی کے حوالے سے ماڈل بنائے پھر نجی سکولوں کو کہا جائے کہ وہ اس کی تخلیق کریں ۔ وزیر قانون و پارلیمانی رانا ثناء اﷲ نے کہا کہ تمام سرکاری سکولوں کی سکیورٹی ٹھیک نہ ہونے کی بات درست نہیں ، اے پلس کیٹگری اور اے کیٹگری کے سکولوں کے لئے انتہائی موثر سکیورٹی انتظامات کیے گئے ہیں ۔

اے پلس کیٹگری میں وہ سکولز شامل ہیں جو مشنری ہیں جبکہ اے کیٹگری کے سکولز سرکاری سکولوں پر مشتمل ہیں ۔ اے پلس کیٹگری سکولوں کے سکیورٹی انتظامات بہت بہتر ہیں جبکہ ہر ڈی پی او کی ڈیوٹی ہے کہ اے پلس اور اے کیٹگری کے سکولوں کے گارڈز کو رجسٹرڈ کریں ، ان کا اسلحہ چیک کریں اور انہیں تربیت دیں ۔ انہوں نے کہا کہ جو نجی سکولز سکیورٹی انتظامات نہیں کر رہے ان کو پہلے نوٹس دیا جاتا ہے اگر وہ عمل نہیں کرتے تو پھر ایک اور نوٹس دیا جاتا ہے ، دوسرے نوٹس پر بھی سکیورٹی انتظامات نہ کرنے کی صورت میں ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی جاتی ہے ۔

ایف آئی آر کے باوجود ان کو موقع دیا جاتا ہے کہ وہ سکیورٹی انتظامات کریں اور پھر بھی عملدرآمد نہ ہونے پر ان کے خلاف کارروائی کرتے ہیں ۔ کسی جگہ خلاف ورزی ہو رہی ہے تو اس کی نشاندہی کی جائے فوری ایکشن لیں گے ۔جس پر میاں اسلم اقبال نے کہا کہ وہ رانا ثناء اﷲ کو ان سکولوں کی تفصیل آج ( جمعرات ) فراہم کریں گے جن کو نوٹس دیئے بغیر ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہیں ۔ ایجنڈا مکمل ہونے پر اسپیکر نے اجلاس آج جمعرات صبح دس بجے تک کیلئے ملتوی کر دیا ۔ اجلاس میں آج میٹرو ٹرین منصوبے پر عام بحث کی جائے گی ۔