کراچی سے روزانہ 450 ملین گیلن ایم جی ڈی گندہ اور آلودہ پانی سمندر میں جاتا ہے،ڈاکٹرسکندر میندھرو

ادارہ تحفظ ماحولیات سندھ صرف مانیٹرنگ کرتا ہے ۔ وہ ماحولیاتی تباہی کے اسباب کا جائزہ لیتا ہے،وزیر ماحولیات سندھ کا وقفہ سوالات میں جواب

منگل 16 فروری 2016 19:03

کراچی ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔16 فروری۔2016ء ) سندھ اسمبلی میں منگل کو وقفہ سوالات کے دوران سندھ کے وزیر ماحولیات ڈاکٹر سکندر میندھرو نے بتایا کہ صرف کراچی سے روزانہ 450 ملین گیلن( ایم جی ڈی ) گندہ اور آلودہ پانی سمندر میں جاتا ہے ۔ سمندر بہت آلودہ ہو چکا ہے ۔ آبی حیات اور انسانی صحت کے لیے بہت خطرات ہیں ۔ سمندر میں 9 بڑے ذرائع سے ٹریٹمنٹ کیے بغیر گندہ اور زہریلا پانی جاتا ہے ۔

ان میں کراچی کے صنعتی علاقوں ، کھاد فیکٹریوں کا دریاؤں اور نہروں میں جانے والا فضلہ ، دریائے سندھ میں مختلف اضلاع کا سیوریج کا پانی ، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ ، ڈی ایچ اے ، کراچی پورٹ ٹرسٹ ، کنٹونمنٹ بورڈز ، آربی او ڈی 1 اور 2 اور سندھ کی شوگر ملز کا ان ٹریٹڈ ( Intreated ) گندہ پانی سمندر میں جاتا ہے ۔

(جاری ہے)

انہوں نے بتایا کہ ادارہ تحفظ ماحولیات ( ای پی اے ) سندھ صرف مانیٹرنگ کرتا ہے ۔

وہ ماحولیاتی تباہی کے اسباب کا جائزہ لیتا ہے ۔ ای پی اے آلودہ پانی چھوڑنے والے اداروں کو نوٹس دیتا ہے ۔ اگر وہ ادارے نوٹس کا تسلی بخش جواب نہیں دیتے تو ان کا ماحولیاتی ٹریبونل میں چالان کیا جاتا ہے ۔ ٹریبونل کے فیصلے کے خلاف ادارے ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ جا سکتے ہیں ۔ اس وقت سپریم کورٹ میں 9 ، ہائیکورٹ میں 81 ، ٹریبونل میں 32 اور صوبائی محتسب کے پاس 15 مقدمات زیر التواء ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ ای پی اے نے مختلف 200 اداروں کو ٹریٹمنٹ پلانٹ نصب کرنے کی ہدایت کی ہے ۔ صنعتی اداروں اور ضلعی انتظامیہ کے نمائندوں کے ساتھ اجلاس منعقد کرتا ہے ۔ نجی اداروں کی طرف سے 25 ٹریٹمنٹ پلانٹس نصب کیے گئے ہیں ۔ مزید پلانٹس بھی نصب کیے جا رہے ہیں ۔ وزیر ماحولیات نے بتایا کہ سمندر میں زہریلے مادوں ، کیمیکلز ، سیوریج کے پانی اور پلاسٹک کی تھیلیوں کی وجہ سے آبی حیات معدوم ہو رہی ہیں اور ہمارے ساحلوں کی خوبصورتی بھی ختم ہو رہی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ پورا کرہ ارض ماحولیاتی مسائل سے دوچار ہے ۔ بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی ہمارا قومی چیلنج ہے ۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ ماحولیات سندھ این جی اوز اور دیگر محکموں کے ساتھ مل کر ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کے لیے کام کر رہا ہے ۔ ایک ایک فرد کو ماحولیاتی خطرات سے آگاہ کرنا ہو گا ۔ وزیر ماحولیات نے بتایا کہ سندھ میں ایک قانون بنایا جا رہا ہے ، جس کے تحت پلاسٹک بیگ صرف آکسو بائیو ڈی گریڈ ایبل میٹریل ( Oxobio Degradable Material ) سے بنائے جا سکیں گے ۔

یہ پلاسٹک بیگ دس بارہ دن میں خود ختم ہو جاتے ہیں ۔ موجودہ پلاسٹک بیگ سو یا دو سو سال تک ختم نہیں ہوتے ۔ قانون سازی کے بعد جو لوگ مذکورہ فارفولے کے مطابق پلاسٹک بیگ نہیں بنائیں گے ۔ ان کی فیکٹریز بند کر دی جائیں گی اور ان پر جرمانے عائد کیے جائیں گے ۔ وزیر ماحولیات نے بتایا کہ کراچی کے صنعتی علاقوں میں زہریلی اور خطرناک گیسوں کے اخراج کی پیمائش کے لیے جاپان انٹرنیشنل کو آپریشن ایجنسی ( JICA ) کے تعاون سے دو ماحولیاتی مانیٹرنگ اسٹیشنز فراہم کیے گئے تھے ۔

ان کی مشینری خراب ہو گئی ہے ۔ مشینری ٹھیک کرنے اور اسٹیشنز کو فعال بنانے کے لیے حکومت سندھ نے ایک اسکیم بنائی ہے ۔ ایک ماہ کے اندر یہ اسٹیشنز فعال بنا دیئے جائیں گے ۔ اس موقع پر وزیر بلدیات جام خان شورو نے کہا کہ کراچی کے سیوریج کے منصوبہ ایس ۔ 3 میں کئی ٹریٹمنٹ پلانٹس کی تنصیب بھی شامل ہے ۔ لیاری ندی میں ٹریٹمنٹ کے بعد پانی چھوڑنے کے منصوبے پر کام جاری ہے ۔

متعلقہ عنوان :