صوبے میں قائم کارخانوں ، او جی ڈی سی ایل، پی پی ایل ماڑی گیس اور دیگر کمپنیوں سے ٹیکس جمع کرنے کے لئے صوبائی حکومت کو اختیار دیا جائے ، صوبے کو سندھ حکومت کے ذمے واجب الادا حب ڈیم کے پانی کے 16 ارب روپے دلانے کیلئے اقدامات کئے جائیں، بلوچستان اسمبلی کی متفقہ قرارد اد میں وفاق سے مطالبہ

پیر 15 فروری 2016 19:58

کوئٹہ۔15فروری(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔15 فروری۔2016ء) بلو چستان اسمبلی کے ارکان نے ایک متفقہ قرارداد میں وفاق سے مطالبہ کیا ہے کہ بلوچستان کی صوبائی حکومت کو اختیار دیا جائے کہ وہ صوبے میں قائم کارخانوں ، او جی ڈی سی ایل، پی پی ایل ماڑی گیس اور دیگر کمپنیوں سے ٹیکس جمع کر ے اور صوبے کو سندھ حکومت کے ذمے واجب ادا حب ڈیم کے پانی کے 16 ارب روپے دلانے کیلئے اقدامات کئے جائیں ۔

بلوچستان اسمبلی کا اجلاس پیر کو اسپیکر راحیلہ حمیدخان دُرانی کی صدارت میں شروع ہوا۔ اجلا س میں پشتونخوامیپ کے رکن اسمبلی آغا لیاقت نے جمعے کو پیش کی گئی تحر یک التواء پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اٹھارہویں تر میم کے بعد صوبے کو اختیار دیا گیا ہے کہ صوبے میں معدنیات یا تیل و گیس کی تلاش کا کام کرنے والی کسی بھی کمپنی کو وفاقی حکومت صوبے سے مشاورت کے بعد لائسنس جاری کریگی لیکن وفاق اس آئینی نقطے کو نظرانداز کر رہی ہے اور اب بھی صوبے کو اعتماد میں لئے بغیر وفاقی حکومت ان کمپنیوں کو لائسنس جاری کر رہی ہے اور حال ہی میں خاران میں پی پی ایل جبکہ ہرنائی میں ماڑی گیس کمپنی کو لائنسنس جاری کئے گئے ہیں صوبے میں کام کرنے والی یہ کمپنیاں حکومت بلوچستان کو کوئی ایڈٹ رپورٹ بھی پیش نہیں کر تی اور ہماری صوبائی حکومت نے اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں کیا ۔

(جاری ہے)

لیاقت آغا نے کہا کہ اس وقت پی پی ایل ہمار ے صوبے کا پندرہ ارب روپے کا مقر وض ہے اور اس کا لائسنس بھی زائد المعیاد ہو چکا ہے ،حکومت بلوچستان کو اب ان کمپنیوں کو کام کرنے سے روکنے کا اختیار ہے۔ لیاقت آغا نے کہا کہ بلوچستان کے انڈسٹر یل اسٹیٹ حب میں متعدد کارخانے کام کر رہے ہیں اور آئین کے تحت جو بھی کارخانہ صوبے میں کام کر یگا اس سے ٹیکس بھی وہی صوبہ حاصل کریگا لیکن بلوچستان کو اس حق سے محروم کردیاگیا ہے اور ایک وفاقی سیکرٹری نے ایک خط کے ذریعے حب کے کارخانوں سے ٹیکس جمع کا اختیار سندھ کی حکومت کو دے دیا ہے اور 18 سال سے یہ ٹیکس سندھ حکومت جمع کر رہی ہے جو تقر یبا 18 ارب روپے بنتے ہیں جو سندھ حکومت بلوچستان کو ادا نہیں کر رہی اس طرح حب ڈیم کے پانی کی مد میں 16 ارب روپے بھی سندھ حکومت صوبے کو ادا نہیں کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کو دریائے سند ھ سے پانی کا پورا حصہ نہیں دیاجارہا کیونکہ دریا سے پانی لینے کیلئے گیٹ سندھ کے حدود میں لگائے گئے ہیں۔انہوں نے ان مسائل کے حل کیلئے صوبائی حکومت سے ماہرین کی ایک کمیٹی بھی تشکیل دینے کی اپیل کی ، سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک نے تحر یک پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ضلع ڈیر ہ بگٹی میں لگائے گئے سوئی گیس پلانٹ کا لائسنس زائد المعیاد ہو چکا ہے اس حوالے سے وفاقی حکومت کو بھی بتایا گیا ہے اور وفاقی حکومت نے لائسنس کی تجدید کی صورت میں صوبے کا پیکیج دوگناہ کرنے کی تجویز صوبے کو دے دی ہے جس کی ابھی صوبائی کابینہ نے منظور ی نہیں دی ہے۔

ڈاکٹر مالک نے کہا کہ دریائے سندھ سے بلوچستان کو پانی کا پورا حصہ ملنے کا امکان نہیں ہے کیونکہ دریاسندھ کا پانی لانے کیلئے مزید نہر بنانا ضرور ی ہے اور وفاقی حکومت نے کیر تھر ڈیم نہر نہیں بنایا ، جمعیت علماء اسلام کی خاتون رکن صوبائی اسمبلی شاہدہ رؤف نے کہا کہ وفاق صوبے کا آئینی حقوق تسلیم کر ے اور این ایف سی کا اجلاس جلد طلب کرے ، صوبائی وزیر تعلیم عبدالر حیم زیارتوال نے تحریک کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کو ٹیکس کلیکشن اور دیگر مدات میں اربوں کا نقصان ہور ہا ہے یہ مسئلہ وفاق کے ساتھ اُٹھایا جائیگا جس کے بعد اسپیکر نے رولنگ دی کہ تحر یک التوا کو قرادادکی شکل میں منظور کیاجاتاہے ،اجلاس میں بلوچستان پبلک سر وس کمیشن کا تر میمی مسودہ قانون پیش کرنے کے بعد مزید غوروخوص کیلئے اسمبلی کی کمیٹی کے حوالے کردیا گیا۔

اجلاس میں صوبائی ڈیزاسٹرمنیجمنٹ اٹھارٹی اوربلوچستان ساؤنڈسسٹم ریگولیشن کے تر میمی مسودہ قوانین کی منظوری بھی دی گئی ، جبکہ حکومتی بنیچوں کے ارکان کی طرف سے پاکستان بیورو اف اسٹیٹسٹکس کے گورننگ باڈی اور ممبرز میں صوبے کو نمائندگی دینے ،اور چلڈرن اسپتال کو ئٹہ کو چلانے کے لئے ایک بااختیار کمیٹی بنانے کے بارے میں قرارداد کی بھی منظوری دی گئی جس کے بعد اسپیکر نے اجلاس اٹھارہ فروری شام چار بجے تک ملتوی کردیا ۔