بلوچستان اسمبلی نے بیور و آف سٹیٹسٹکس میں بلوچستان کو موثر نمائندگی دینے سے متعلق قرار داد متفقہ طورپر منظور کرلی

پیر 15 فروری 2016 19:55

کوئٹہ۔15فروری(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔15 فروری۔2016ء) بلوچستان اسمبلی نے بیور و آف سٹیٹسٹکس میں بلوچستان کو موثر نمائندگی دینے سے متعلق قرار داد متفقہ طورپر منظور کرلی،محکمہ تعلیم کے شعبہ آئی ٹی سے منسلک اساتذہ کو تنخواہو ں کی ادائیگی سے متعلق پیش کردہ قرارداد واپس لے لی گئی جبکہ چلڈرن ہسپتال کوئٹہ کی حالت زار کو بہتر بنانے سے متعلق پیش کردہ مشترکہ قرار داد خصوصی کمیٹی کے سپرد کردی گئی اسی طرح ایف بی آر سے متعلق پیش کردہ تحریک التواء کو قرار داد کی شکل میں منظور کرلیا۔

بلوچستان اسمبلی کا اجلاس پیر کو سپیکر راحیلہ حمید درانی کی زیر صدارت شروع ہوا ۔ اجلاس کے ایجنڈے میں شامل وقفہ سوالات کو موخر کیا گیا جبکہ جو قرار داد واپس لی گئی وہ گزشتہ اجلاس میں نیشنل پا رٹی کی رکن ڈاکٹر شمع اسحاق نے پیش کی تھی جسے پیر کے اجلاس میں دوبارہ پیش کیا گیا مذکورہ قرار داد میں کہا گیا تھا کہ محکمہ تعلیم میں آئی ٹی کے شعبے سے وابستہ اساتذہ کرام او ر دیگر ملازمین کو گزشتہ 31مہینوں سے تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کی گئی جس کی بناء پر وہ سراپا احتجاج اور نان شبینہ کے محتاج ہیں اس لئے ان ملازمین کی تنخواہوں اور مستقل تعیناتیوں کی سمری جلد ازجلد منظور کی جائے۔

(جاری ہے)

قرارداد کی محرکہ کے اظہار خیال کے بعد نیشنل پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے ایوان کو بتایا کہ مذکورہ ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی بھی ایک مسئلہ ہے مگر جہاں تک انہیں یاد پڑتا ہے مذکورہ ملازمین کا بنیادی مسئلہ سروس رول کا ہے وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ وہ اس سلسلے میں محکمے سے ضروری معلومات لیں گے اور جائزہ گے کہ اس معاملے میں کیا کیا جاسکتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ وہ 18تاریخ کے اجلاس میں تمام تفصیلات سے ڈاکٹر شمع اسحاق اور ایوان کو آگاہ کریں گے ۔ ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے ڈاکٹر شمع اسحاق سے کہا کہ ا ب وہ18تاریخ تک انتظار کریں اور قرار داد پر زور نہ دیں جس پر ڈاکٹر شمع اسحاق نے یہ کہتے ہوئے قرارداد واپس لے لی کہ اگلے اجلاس میں وزیر تعلیم تفصیلات سے آگاہ کریں گے اور تمام ممبران کو اعتماد میں لیں گے ۔

وفاقی شماریاتی ادارے میں بلوچستان کی نمائندگی سے متعلق رحمت صالح بلوچ،نصراللہ زیرئے ،ڈاکٹر رقیہ سعیدہاشمی،عارفہ صدیق ،سپوژمئی اچکزئی اور معصومہ حیات کی مشترکہ قرار دادرکن اسمبلی نصراللہ زیر ئے نے پیش کی قرار داد میں کہا گیا تھا کہ مشترکہ مفادات کونسل کے 18مارچ2015ء کے فیصلے کے مطابق نئی مردم شماری مارچ2016سے کروانا متوقع ہے جس پر اٹھنے والے تقریباً145ارب روپے کے اخراجات صوبوں سے وصول کئے جائیں گے سال 2011ء میں مردم شماری کاادغام وفاقی شماریاتی ادارے اور ایگریکلچرل شماریاتی ادارے میں کرکے پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کے نام سے تنظیم نو کی گئی ہے جس نے 2011ء میں خانہ شماری عمل میں لائی او ر جس میں نہ تو صوبوں کو نمائندگی دی گئی اور نہ ہی بھرتی کے عمل میں صوبوں کے کوٹے کا تعین کیا گیا ہے اس لئے وفاقی حکومت سے رجوع کیا جائے کہ و گورننگ اور فنکشنل ممبر ز میں صوبہ بلوچستان کو موثر نمائندگی دے۔

عبدالرحیم زیارتوال اور قرارداد کے محرک نصراللہ زیرئے کے اظہار خیال کے بعد ایوان نے قرارداد متفقہ طور پرمنظور کرلی۔ چلڈرن ہسپتال سے متعلق مشترکہ قرار داد بھی نصراللہ زیرئے نے پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ بچوں کے علاج معالجے کے لئے چلڈرن ہسپتال واحد ہسپتال ہے ۔ا س کا قیام 1998ء میں جرمن حکومت کے تعاون سے عمل میں لایا گیا جو بلا شبہ صوبے کے عوام کے لئے عظیم تحفہ ہے ۔

2003ء کے بعد ایک معاہدے کے تحت حکومت بلوچستان نے ہسپتال کو اپنے دائرہ اختیار میں لینا تھا لیکن بوجوہ ایسا نہیں ہوسکا باقاعدہ انتظامی ڈھانچہ نہ ہونے کے باعث ہسپتال خسارے میں چلا گیا جس کی وجہ سے ہسپتال کی انتظامیہ نے فیسوں میں اضافہ کردیا ہے جس سے صوبے کے غریب اورنادرا مریض بچوں کو علاج معالجے میں سخت مشکلات کا سامنا ہے دوسری جانب ہسپتال میں 17سال سے کام کرنے والے غریب ملازمین بھی ریگولرنہیں ہیں اور ان کا مستقبل بھی تاریک نظر آرہا ہے اگر حکومت نے اس فعال ادارے کو اپنی تحویل میں نہ لیا تو یہ ادارہ مزید زوال پذیری کے باعث بند ہونا ایک فطری امر ہے جس سے صوبے کے عوام کو بچوں کے علاج معالجے کی واحد سہولیت سے مستفید ہورہے ہیں وہ اس سہولت سے محروم ہوجائیں گے۔

قرار داد میں صوبائی حکومت سے سفارش کی گئی تھی کہ چلڈرن ہسپتال کوئٹہ کی حالت زار کو بہتر بنانے نیز ہسپتال کے انتظام کو باقاعدہ طریقے سے چلانے کے لئے فوری طورپر ایک بااختیار کمیٹی بنائی جائے تاکہ چلڈرن ہسپتال سے صوبے کے عوا م مستفید ہوسکیں ۔ڈاکٹر رقیہ ہاشمی نے قرا ر داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اہم نوعیت کی قرار داد ہے اس حوالے سے سپیشل کمیٹی بننی چاہئے،رکن صوبائی اسمبلی ولیم جان برکت نے کہا کہ کڈنی سینٹر کی طرح اس ہسپتال کو بھی ایک بورڈ کے تحت چلایا جائے۔

اپوزیشن رکن صوبائی اسمبلی سردار عبدالرحمان کھیتران نے بھی قرار داد کی حمایت کی ان کا کہنا تھا کہ ہسپتال کا بہت ہی برا حال ہے بلوچستان حکومت ڈھائی کروڑ دے رہی تھی وہ بھی شاہد اب نہیں دیئے جارہے اس حوالے سے پارلیمانی کمیٹی بننی چاہئے جو بورڈ آف ڈائریکٹرز بنائے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ ہمیں قوانین کو دیکھنا چاہئے قانون ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم بورڈ آف ڈائریکٹرز بنائیں البتہ ہم اس کی نگرانی ضرور کرسکتے ہیں ۔

وزیر صحت رحمت صالح بلوچ کا بھی کہنا تھا کہ بورڈ آف ڈائریکٹرز میں دخل نہیں دیا جاسکتا، صوبائی وزراء ڈاکٹر حامد اچکزئی،عبدالرحیم زیارتوال کے اظہار خیال کے بعد سپیکر نے مذکورہ قرار داد خصوصی کمیٹی کے سپرد کردی جو اس کا جائزہ لے گی خصوصی کمیٹی میں صحت کی قائمہ کمیٹی کے اراکین کے ساتھ ساتھ لائی گئی قرار دا د کے تمام محرکین،ڈاکٹر رقیہ ہاشمی،ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ،طاہر محمود،کشورجتک،شاہدہ رؤف کمیٹی میں شامل ہوں گے جو ایک مہینے کے اندر اپنی رپورٹ دے گی۔

ایوان میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رکن آغا سید لیاقت کی لائی گئی اس تحریک التوا پر عا م بحث بھی ہوئی جو انہوں نے گزشتہ اجلاس میں پیش کی تھی بحث میں حصہ لیتے ہوئے آغا سید لیاقت علی کا کہنا تھا کہ ٹیکس کلیکشن کی مد میں مسلسل بلوچستان کا حق غصب کیا جارہا ہے سندھ اور باقی صوبے کلیکشن کی مد میں بلوچستان کے اربوں روپے کھا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تیل و گیس تلاش کرنے والی کمپنیاں بلوچستان حکومت کو خاطر میں ہی نہیں لاتیں ، انہوں نے کہا کہ پی پی ایل پر بلوچستان حکومت کے 15ارب روپے واجب الادا ہیں یہ ہمیں ملنے چاہئیں اگر نہیں دیتے تو ہمیں شیئرز دیئے جائیں ،انہوں نے کہا کہ ایف بی آر جب سی بی آر تھا تب ا س کے چیئرمین نے ایک عارضی حکمنامہ جاری کیا تھا جس کے تحت بلوچستان کے صنعتی شہر حب میں قائم کارخانوں او رصنعتی مراکز کا ٹیکس کراچی اور دیگر شہروں میں جمع کرایا جارہا ہے پچھلے سال سندھ حکومت کو 15ارب روپے ملے جس میں 5ارب ہمارے حصے کے تھے جبکہ ہمیں صرف ایک ارب روپے دیا گیا ۔

انہوں نے کہا کہ حب ڈیم کا پانی ہم د ے رہے ہیں 16ارب روپے ہمارے وہ ان کے ذمہ ہیں وہ نہیں دیئے جارہے اور نہ ہی کوئی ان سے مانگ رہا ہے ہمیں اپنے حصے کا پانی تک نہیں ملتا ۔انہوں نے ا س حوالے سے ایک کمیٹی بنانے کی بھی تجویز دی اور کہا کہ وہ اپنی لائی گئی اس تحریک التواء کو قرار داد کی صورت ایوان میں پیش کرکے منظور کرانا چاہتے ہیں اراکین کے اظہارخیال کے بعد ان کی لائی گئی تحریک التواء کو قرار داد کی صورت منظور کرلیا گیا بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں صوبائی وزیر نواب محمد خان شاہوانی نے بلوچستان پبلک سروس کمیشن کا ترمیمی مسودہ قانون بھی پیش کیا جبکہ محکمہ داخلہ و قبائلی امور ،جیل خانہ جات اور پی ڈی ایم اے کی قائمہ کمیٹی کی رپورٹ بھی ایوان میں پیش کی گئی ایوان نے بلوچستان ساؤنڈ سسٹم (ریگولیشن)کا مسودہ قانون اور دیوارو ں پر اظہار رائے کے تشہیری مواد کے امتناع کا ترمیمی مسودہ قانون بھی متعلقہ کمیٹی کی سفارشات کے بموجب منظور کرلیااسمبلی کا آئند ہ اجلاس18فروری کی سہ پہر4بجے منعقد ہوگا۔

متعلقہ عنوان :