چین کے پاس 6.5فیصد پیداواری شرح کے حصول کے لئے کافی وسائل ہیں ، ماہر اقتصادیات

چین کا فروغ پذیر شعبہ سروس اقتصادی پیداوار کو فروغ دے رہا ہے ،سٹیفن روچ

ہفتہ 13 فروری 2016 17:26

نیویارک (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔13 فروری۔2016ء) یالی یونیورسٹی کے ماہر اقتصادیات سٹیفن روچ نے کہا ہے کہ چین کے پاس 6.5فیصد پیداوار کے حصول کے لیے کافی وسائل ہیں اور اس نے بنیادی ڈھانچے کے ردو بدل میں حوصلہ افزاء پیش رفت کی ہے ۔روچ جو کہ بیجنگ سے حال ہی میں واپس آنے والے یالی یونیورسٹی کے جیکسن انسٹی ٹیوٹ آف گلوبل افیئر ز کے سنیئر فیلو ہیں ، گذشتہ روز شنہوا کو بتایا کہ اس کا تاثر یہ ہے کہ بیرون چین کے مقابلے میں چین میں کم خدشہ پایا جاتا ہے چین کے اندر وسیع تر نتیجہ یہ ہے کہ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے چین کی قیادت اور حکمت عملی پر بدستور اعتماد ہے ، روچ نے کہا کہ اس کے خیال میں چینی معیشت بہتری کی طرف مائل ہے جو کہ اس سے کہیں بہتر ہے جو کہ مارکیٹ اخذ کررہی ہے ،شرح پیداوار میں سست روی چینی معیشت میں مینو فیکچرنگ اور کنسٹرکشن سے سروسز کی طرف سٹرکچر تبدیلی کی مظہر ہے ، کسی بھی معیشت کے لیے اس کا مطلب سست رو پیداوار ہے چین اس سے مستثنیٰ نہیں ہے ۔

(جاری ہے)

روچ نے جو کہ مورگن سٹینلے کا چیف ماہر اقتصادیات اور مورگن سٹینلے ایشیا کا سابق چیئر مین ہے کہا کہ چین کا صنعتی شعبہ بظاہر کمزور عالمی مانگ سے متاثر ہوا اور آر ایم بی کی شرح قدر میں کمی سے اثرات مرتب ہوئے ہیں ، کمزوری کی یہ وجوہ ہیں ، تاہم انہوں نے کہا کہ چین کے سروس شعبے کی ابھرتی ہوئی پیداوا ر دھچکوں کو ٹال سکتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ فروغ پذیر شعبہ سروس زوال پذیر صنعتی شعبے کو مکمل طورپر ازالہ نہیں کر سکتا اہم بات یہ ہے کہ شعبہ سروس صنعتی شعبہ سے کم روز گار کے بڑے حصے کا ازالہ کر سکتا ہے یہ جی ڈی پی سے زیادہ اہم ہے ۔

انہوں نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ جب تک چینی حکومت خود کو ری سٹرکچنگ کا پابند بناتی ہے اور اصلاحات پر عمل کے لیے تند ہی سے کام کرتی ہے چین یقینی طورپر 6.5فیصد کی پیداواری شرح حاصل کرسکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ چینی پیداوار کی سست روی آسٹریلیا ، کینیڈا ، روس اور برازیل جیسے اہم ایشیا کے برآمد کنندگان پر اثرانداز ہو سکتی ہے کیونکہ چین انڈسٹری نوعیت کے ماڈل سے کاربن لائٹ سروسز ماڈل کی طرف مراجعت کررہا ہے جس کے نتیجے میں ایشیا کی کم مانگ ہو گی تا ہم اچھی خبر یہ ہے کہ چین اگر اپنی معیشت میں دوبارہ توازن قائم کرنے میں کامیاب رہا تو اشیائے صارفین کی مانگ پیدا کردے گا ۔

دریں اثنا انہوں نے کہا کہ چین سے سرمائے کی منتقلی اس طرح کا بحران پیدا نہیں کرے گی جس طرح 1990کی دہائی کے اواخر میں ایشیا میں پیدا ہوا ہے اس کے بعد سے بحران کے دوران چین اور مشرقی ایشیا کی معیشتوں میں بڑا فرق ہے ۔

متعلقہ عنوان :