یورپی اتحاد میں شامل ملکوں کو سخت سیاسی پالیسی اپنانی چاہیے اور مہاجرین کے قافلوں پر سختی کے ساتھ قابو پانا چاہیے‘غیر قانونی طریقے سے پہنچنے والوں کو پناہ نہیں دی جانی چاہیے‘ بین الاقوامی دہشت گردی کی مخالفت ہمارا اولین فریضہ ہے‘ اس کے لیے شام کے تصادم کو بھی ختم کیا جانا ہوگا، اس ملک کے عوام کو مجرموں کے ساتھ لڑنے کے لیے مدد دینی ہوگی،روسی وزیراعظم کا انٹرویو

Mian Nadeem میاں محمد ندیم ہفتہ 13 فروری 2016 12:28

یورپی اتحاد میں شامل ملکوں کو سخت سیاسی پالیسی اپنانی چاہیے اور مہاجرین ..

ماسکو(ا ردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 13فروری۔2016ء) روس کے وزیراعظم ڈمٹرڈی میڈوڈی نے کہا ہے کہ بین الاقوامی دہشت گردی کی مخالفت ہمارا اولین فریضہ ہے‘ اس کے لیے شام کے تصادم کو بھی ختم کیا جانا ہوگا، اس ملک کے عوام کو مجرموں کے ساتھ لڑنے کے لیے مدد دینی ہوگی، معیشت بحال کرنی ہوگی اور پرامن حکومت استوار کرنی ہوگی‘ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم یوکرین کے بحران کو تمام کرنے کی خاطر کوشش کریں‘ اس بنیادی میونخ پیکج پر عمل درآمد کروائیں جس پر مکمل طور پر عمل کرنے میں کیف کو جلدی نہیں‘دوسرے چیلنج جن کا ہمیں سامنا ہے ان مین بلا شبہ مہاجرین اور تارکین وطن کا مسئلہ ہے جو درحقیقت لہر کی شکل میں یورپ کو ڈھانپے جا رہے ہیں۔

اصل میں ان تمام مسئلوں کا ایک ہی حل ہے کہ سلامتی کو یقینی بنایا جائے۔

(جاری ہے)

ہمارے روسی نقطہ نگاہ سے کانفرنس میں شرکت کی بنیاد یہ تمام مسئلے ہیں۔میرا کام تقریر کرکے تمام نہیں ہوگا۔ مجھے دوسرے ملکوں کے ہم منصب لوگوں کے ساتھ کئی ملاقاتیں کرنی ہیں۔روس کے سرکاری نشریاتی ادارے سے انٹرویومیں روسی وزیراعظم نے کہا کہ میںامید کرتا ہوں کہ اہل مغرب بے مہر نہیں ہونگے۔

فرض کریں کہ ہمارا موقف بہت سوں کو پسند ن ہیں آتا تو یہ معمول کی بات ہے‘ اہم بات یہ ہے کہ یہ ہمارا موقف ہے‘ متاسفانہ ہمارے مغربی شرکائے کار کسی بھی طرح اس سے شناسا نہیں ہو پا رہے۔جبکہ ہم کسی بھی طرح دنیا کی سربراہی کا کردار نبھانے کے لیے کوشاں نہیں ہیں۔ ہم اس طرح کے رویے سے سوویت عہد میں گزر چکے ہیں جب سرخ چوک پر ٹینکوں کی گڑ گڑاہٹ سے پوری دنیا لرز جایا کرتی تھی۔

مگر روس کو عالمی ترتیب میں مناسب اور دوسرے ملکوں کے برابر مقام ملنا چاہیے۔ایک اور سوال کے جواب میں روسی وزیراعظم نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ روس اور نیٹو و یورپی اتحاد میں ہمارے شراکت کاروں کو نہ یہ کہ کچھ کرنا چاہیے بلکہ ان کا فرض ہے کہ پہلے کی سی شکل میں تعاون کو بحال کریں۔ اس شرط پر کہ انہیں باہمی تعزیم اور ایک دوسرے کے مفادات کے پیش نظر بحال کیا جائے گا۔

ہم نے کبھی ایسی شراکت کاری سے انکار نہیں کیا۔ چاہے اس بارے میں یورپی اتحاد اور نیٹو میں ہمارے شرکائے کار کچھ بھی کیوں نہ کہیں۔ درحقیقت ان کی جانب سے روابط توڑے گئے تھے، ان معاملات کو سیاسی شکل دی تھی جن کا مقصد استحکام اور سلامتی کو یقینی بنانا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہم سب کے لیے دنیا چند سال پہلے سے کہیں زیادہ ناقابل قیاس ہو چکی ہے اور بہت سے خطرات درپیش ہیں۔

مہاجرین اور پناہ گزینوں کے مسلہ کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یورپی اتحاد میں شامل ملکوں کو سخت سیاسی پالیسی اپنانی چاہیے اور مہاجرین کے قافلوں پر سختی کے ساتھ قابو پانا چاہیے۔ جی ہاں ایسا کہنا تو آسن ہے مگر کرنا مشکل۔ تاہم یورپی اتحاد میں غیر قانونی طریقے سے پہنچنے والوں کو پناہ نہیں دی جانی چاہیے۔ یورپ کے عوام بھی اسی کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔

ممکن ہے کہ وقت کے ساتھ سمجھ جائیں کہ اس طرح زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس وقت ہجرت کرنے کے خواہاں لوگوں کو اپنی کامیاب رسائی کے امکان سے متعلق یقین ہے۔روس بھی مہاجرین کو قبول کرتا ہے۔ یہ یاد کرنا کافی ہوگا کہ دس لاکھ سے زیادہ لوگ یوکرین سے بھاگ کر روس پہنچے تھے۔ ہمارا مقام رہائش تبدیل کرنے والوں سے متعلق بہت تجربہ ہے۔

ہم اس تجربے بارے یورپی اتحاد کو بتانا چاہیں گے۔ ہم نے اس قسم کی تجویز یورپی اتحاد کو دی ہے۔ ہم ایک ملحق ملک کے طور پر بشمول رس کے راستے مہاجرین کی بے مہابا آمد کو روکنا چاہتے ہیں۔مارچ میں روس اور یورپی اتحاد کے ماہرین ترک وطنی بارے ملاقات کریں گے۔ مجھے یقین ہے کہ تب اس مسئلے کا حل وضع کیا جا سکے گا۔روس پر عائد پابندیوں کے حوالے سے روسی وزیراعظم نے کہا کہ ہمارا پابندیاں ہٹائے جانے کی شرائط بارے بحث کرنے کا ارادہ نہیں ہے۔

ہم نے ان کا آغاز نہیں کیا تھا، اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کو انہیں پہلے ختم کرنا چاہیے جنہوں نے آغاز کیا تھا۔ میونخ کانفرنس کے ایجنڈے میں جو مجموعی سلامتی کے مسئلے بارے ہوتی ہے، پابندیوں کا علیحدہ موضوع شامل نہیں ہے۔ یہ اور بات ہے کہ متعلقہ لوگوں سے ملاقاتوں کے دوران ، خاص طور پر کاروباری لوگوں کے ساتھ یہ موضوع چھڑتا ہے۔ کاروباری لوگ ہی جن کو مالی نقصان ہوتا ہے زیادہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ پابندیوں سے ماسوائے معیشت کو نقصان پہنچنے کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ ہمارے ملک پر پابندیاں دس بار للگائی جا چکی ہیں۔ کچھ نہیں ہوا۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوگا۔ مگر اس کا نقصان ان کاروباری شراکت کاروں کو زیادہ ہوگا جن کے ہاتھ سے روس کی منڈی نکلی جا رہی ہے۔

متعلقہ عنوان :