جادو ٹونے کا شکار شہری ہاتھی کے بال خریدنے میرے پاس آتے ہیں، پیشاب اور فضلا مرگی اور دیگر بیماریوں کے علاج کی غرض سے لے جا یا جا رہا ہے،

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں واقع اکلوتے چڑیا گھر میں موجود تنہا ہاتھی ”عقاون“ کے بارے میں مہابت جمیل کی دلچسپ گفتگو

جمعہ 12 فروری 2016 22:44

جادو ٹونے کا شکار شہری ہاتھی کے بال خریدنے میرے پاس آتے ہیں، پیشاب اور ..

اسلام آباد ۔ 12 فروری (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔12 فروری۔2016ء) وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں واقع اکلوتے چڑیا گھر میں موجود تنہا ہاتھی ”عقاون“ کے بارے میں دلچسپ حقائق کا انکشاف ہوا ہے ۔ چڑیا گھر میں سیاحوں کا دل بہلانے والے اکلوتے ہاتھی عقاون کو جادو ٹونے کے شکار شہریوں نے اپنا مرشد مان لیا۔

جادو سے بچنے کیلئے لوگ ہاتھی کے بال خریدنے لگے، جبکہ پیشاب اور فضلا مرگی اور دیگر بیماریوں کے علاج کی غرض سے لے جا یا جا رہا ہے۔” عقاون“ کی تنہائی دور کرنے کیلئے انتظامیہ نے دو مادہ ہاتھی منگوانے کا فیصلہ کر لیا۔ اطلاعات کے مطابق مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں دارالحکومت کے اکلوتے چڑیا گھر میں موجود تنہا ہاتھی ”عقاون “کے بارے میں دلچسپ حقائق معلوم ہوئے ہیں۔

(جاری ہے)

یہ ہاتھی عرصہ 8 سال سے تنہائی کا شکار ہے۔ خوشگوار موسم میں سستی کا شکار ہو کر کئی گھنٹوں تک جھومتا رہتا ہے۔ ہاتھی کے مہابت جمیل نے کو بتایا کہ ”عقاون“ ہاتھی کی تنہائی کو دور کرنے کیلئے وزیراعظم کی ہدایات پر انتظامیہ نے دو مادہ ہاتھی منگوانے کا فیصلہ کیا ہے۔ مہابت جمیل نے انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ توہم پرستی کے شکار شہری ہاتھی کے ناخن اور بال جادو ٹونے سے محفوظ رہنے کیلئے لینے آتے ہیں جبکہ ”عقاون“ کے پیشاب سے مرگی جیسے مرض کا علاج کرنے کیلئے لوگ لیٹروں میں خریدتے ہیں۔

یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ دیگر بیماریوں کے علاج کیلئے لوگ ہاتھی کا فضلا بھی تھیلوں میں بھر کر لے جاتے ہیں۔ چڑیا گھر کے ذرائع سے معلوم ہوا کہ پیشاب اور فضلا لیجانے والوں میں پڑھے لکھے شہری بھی شامل ہیں۔ پولیس، سی ڈی اے اور دیگر اداروں کے اعلی افسران بھی پیشاب اور فضلا لے کر گئے ہیں۔ ذرائع سے معلوم ہوا کہ مہابت سے ہاتھی کا پیشاب 150 روپے لیٹر اور فضلے کا تھیلا 100 روپے میں ملتا ہے۔ ہاتھی کے بال اور پاؤں کے ناخن بھی گھر میں رکھنے کیلئے لے کر جاتے ہیں جس کیلئے زیادہ معاوضہ ادا کرنا پڑتا ہے۔

متعلقہ عنوان :